خواہشیں اور خبریں عروج پر

 
0
411

زوال پذیر معاشرے میں اخلاقیات کی حیثیت اتنی ہی ہوتی ہے جیسے طوائف کے نزدیک عزت کی،،دہشتگرد کے نزدیک جان کی،کرپٹ لوگوں کے نزدیک الزام کی !!اور ایسے معاشرے کے باسی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں کی عزت،حرمت،جان ومال سمیت ہر شے کو تہیس نہیس کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے!اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر میڈیا میں اپنی خودنمائی اور خوشامد ی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ دوسروں کے بیڈ روم کی خبروں کو ذرائع کی آڑ میں نشر کروا کراپنی انا کو تسکین دی جاتی ہے،،،اگر ان علامات کا غور سے جائزہ لیا جائے اور کسی ملک کو زوال پذیر معاشرے کے طور پر نامزد کیا جائے تو یقیناًپاکستان اس میں سرفہرست نظر آتا ہے!
جہاں ہر شخص دوسرے کو گرانے پر پوری قوت لگاتاہے،راتوں رات ترقی کی منزال طے کرنے،شہرت کے آسمان پر درخشاں ستارہ بن کر چمکنے کے لیے جھوٹ،فراڈ،دغا،بے حسی،دلالی سمیت ہر حربے پر ببانگ دہل عمل کرکے فخر محسوس کیا جاتا ہے جو جس قدر چاپلوس اور جھوٹ بولتا ہے وہ اتنا ہی معتبر ٹھہرتا ہے،ان تمام لوازمات کو مد نظر رکھ ملکی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالیں تو ایک مکتب فکر روزانہ کی بنیاد پر شریف خاندان کو کرپٹ ترین ثابت کرکے جیل کی سلاخوں میں ڈال کرسوتا ہے جبکہ دوسرے مکاتب فکر کے فائدہ خور اپنے حکمرانوں کو آئندہ پانچ سال کی حکومت سونپے کر سوتاہے،یہ وہ خواہش ہے جو دونوں اطراف مسلسل کی جارہی ہے،،اسی لیے خبریں بھی زبان زدِعام ہے۔۔۔
ویسے یاد دہانی کے لیے پرویز مشرف کو دو سے تین بار باوردی صدر منتخب کروانے والے آج پارلیمنٹ میں دونشستوں کے ساتھ براجمان ہیں،اس لیے چاپلوسی کہیں مروا نہ دے۔۔۔۔
جبکہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ملک میں باقی سب اچھا چل رہا ہے تمام عوام خوشحال ،پرسکون،پرامن صحت اور تعلیم کی سہولیات سے مالامال ہیں،کوئی غریب بھوک کی وجہ سے نہیں مر رہا،کسی حوا کی بیٹی کی عزت نہیں لوٹی جاتی،کسی غریب کو انصاف کی بھیک نہیں مانگنی پڑتی،کوئی بے قصور 14یا17سالوں کی قید کاٹ کر مقدمے سے بری نہیں ہوتا!یہاں پہلا اورآخری مسئلہ پاناما ،نواز شریف اور انکا خاندان ہے،بس وہ اقتدار کے مسند سے ہٹ جائے تو ملک درست ڈَگر پر چلا پڑے گا۔۔۔۔ایسی خواہش ہے جو نجانے کب بَرآئے گی!!!مگر خبر تو روز آئے گی۔۔۔۔
جو نواز شریف کو گھر جاتا دیکھ رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ کل اُن کو بھی جانا ہوگا،کیونکہ اگر نواز شریف کے معاملے پر 62،63حرکت میں آئے گا تو پھر اس کی زد میں بہت سے آئیں گے اور جمہوری نظام تو درکنار نظام پاکستان چلانا ہی دشوار ہوجائے گا،،اس لیے خواہشات میں اس قدر آگے نہ نکل جائیں کہ کل آپ کو بھی مسند نصیب نہ ہو اور پشیمانی بنی گالہ کا مقدر بن جائے،،کیونکہ آپ کو حکومت اور وزارت عظمٰی کی لالچ دے کر استعمال کیا جا رہا ہے جس میں بہت سے بظاہر آپکے دوسری جانب خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ جن راستوں کو استعمال کرکے نواز شریف کو گھر بھیج رہے ہیں وہ سیاسی میدان نہیں بلکہ عدالتی میدان ہے،جس کا مطلب ہے کہ آپ تسلیم کررہے ہیں کہ سیاسی اور عوامی طور پر آپ نواز شریف کو مات نہیں دے پارہے،تمام قوتوں کی سپورٹ،عدالتی چوٹ کے بعد شاید وزارت عظمٰی آپ کی ہوسکے،مگر یہ خواہش تو ہوسکتی ہے اسی لیے خبر بھی ہے۔۔۔۔
اس طرح نواز لیگ کے اندر بھی ایک مضبوط دھڑا ہے جو اپنے اپنے دھڑے کے بڑے کو نواز شریف کے جانے کے بعد وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے،چوہدری نثار حسبِ معمول کڑے وقت میں ناراض ہیں کہ چھوٹے درجے کے لوگوں سے مشاورت کر کے عمل کرنے سے حالات اس قدر خراب ہوئے جبکہ ان کی وفاداری پر شک کیا جارہا ہے،وہ اپنا نقط نظر عوام کے سامنے رکھیں گے ،لیکن تحریک انصاف والے سمجھ رہے ہیں کہ شاید چوہدری نثار ایک بڑے دھڑے کیساتھ ن لیگ سے علیحدگی اختیار کرلیں گے،اس خواہش کو خبر بنا کربغلیں بجانے والوں نے اسی خواہش کو خبر بنا دیا،،جس سے تجزیوں اور تحریروں کا بازار گرم ہوگیا،،مگر حقیقت کچھ اور ہے!!
اب آئیے وزیراعظم کی دوڑ میں شریک گھوڑوں پر!احسن اقبال جن کے سفارشیوں کا تعلق راولپنڈی سے ہے وہ بھی خاصے مطمئن اور محنت کر رہے ہیں،ایاز صادق کا تعلق ن لیگ کے مریم نواز ونگ سے خاصہ قریبی ہے اور لاہوریے ہونے کے نمبر الگ ہیں مگر وہ سب کو راضی رکھنے کے قائل ہیں اس لیے کسی ایک کو بھی راضی نہیں کرپاتے ،خواجہ آصف جن کا نواز شریف سے یونیورسٹی کے دورکا تعلق ہے ،ابھی حال ہی میں نواز شریف سیالکوٹ گئے اور خاصی بے تکلف ملاقات رہی،خواجہ آصف کو پیپلزپارٹی کی حمایت فاروق ایچ نائیک کے راستے سے میسر آسکتی ہے،جبکہ چوہدری نثار خواجہ آصف کی کابینہ کا حصہ نہیں ہونگے تو زرداری کا مطالبہ بھی پورا ہوجائیگا۔۔۔شاہد خاقان عباسی بھی اس دوڑ میں قابل اعتماد امیدوار ہیں،کیونکہ خواجہ آصف اور چوہدری نثار کی اندرونی لڑائی،ایاز صادق مریم ونگ کے قریبی اور احسن اقبال کے سفارشی راولپنڈی والے ہیں،اس لیے شاہد خاقان عباسی پر تمام کا اتفاق ہوسکتا ہے،،مگر یہ تمام وہ خواہشات ہیں جو وزیراعظم کے گھر جانے کے بعد ہی پوری ہوسکتی ہیں،،کیونکہ پاکستان زوال پذیر معاشرے میں پہلے نمبر پر پہنچ چکا ہے اس لیے یہاں وفاداری اخلاقیات،احکامات،کلمات اور احترام کی کوئی وُقت نہیں!یہاں تو بس اپنا فائدہ،پیسہ،طاقت، کرسی
شہرت کا حصول ہی آخری ٹارگٹ ہے بھلے اس کی قیمت کچھ بھی ادا کرنی پڑے!اسی لیے تو پاکستان میں آجکل خواہشیں اور خبریں عروج پر ہیں