نور مقدم قتل کیس: ’غلط الفاظ‘ پر جج نے ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا

 
0
100

اسلام آباد 03 نومبر 2021 (ٹی این ایس): اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کی جانب سے مسلسل ’غلط الفاظ‘ استعمال کرنے پر انہیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں مرکزی ملزم ‏ظاہر جعفر سمیت تمام ملزمان پیش ہوئے۔

دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر نے متعدد مرتبہ کچھ کہنے کی کوشش کی۔

کمرہ عدالت میں ملزم ’حمزہ‘ کا نام پکارتا رہا اور کہا ’یہ میرا کورٹ ہے، میں نے ایک چیز کہنی ہے‘۔

اس دوران پولیس ملزم کو زبردستی کمرہ عدالت سے باہر لے کر جانے لگی تو ظاہر جعفر نے کہا کہ کمرہ عدالت میں رہ کر مجھے جج کو کچھ کہنا ہے۔

بعدازاں مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا کہ میں اب نہیں بولوں گا اور وہ دروازے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔

اس دوران نقشہ نویس عامر شہزاد پر ذاکر جعفر کے وکیل کی جرح نہ ہو سکی اور جونیئر وکیل نے کہا کہ ایڈووکیٹ بشارت اللہ جب آئیں گے تو جرح کریں گے جبکہ باقی ملزمان کے وکلا نے نقشہ نویس پر جرح مکمل کر لی۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر عدالت میں رہ کر مسلسل بولتا رہا کہ کمرہ عدالت میں میرے سمیت فیملی کے افراد انتظار کر رہے ہیں۔

کمرہ عدالت میں کھڑے ہو کر ملزم ظاہر جعفر نے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا کہ ’پردے کے پیچھے کیا ہے‘۔

ظاہر ذاکر جعفر مسلسل کہتا رہا کہ ’پردے کے پیچھے کیا ہے، میں اور میری فیملی انتظار کر رہے ہیں‘۔

جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ ملزم ڈرامے کر رہا ہے، اسے کمرہ عدالت سے باہر لے جائیں۔

پولیس کی جانب سے ملزم کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کی کوشش میں ظاہر جعفر نے انسپکٹر مصطفیٰ کیانی کا گریبان پکڑ لیا۔

اس کوشش کے دوران ظاہر جعفر قابو نہ آسکا تو مزید پولیس اہلکاروں کو طلب کرکے ملزم کو اٹھا کر بخشی خانہ لے جایا گیا۔

اس سے قبل عدالت میں استغاثہ کے گواہ نقشہ نویس کا بیان قلمبند کیا گیا، گواہ نے کہا کہ گواہی میں 161 کے بیان کی تاریخ اور نوٹ میرے لکھے ہوئے ہیں۔

جس پر وکیل نے کہا کہ نقشہ آپ کا اپنا تیار کردہ ہے اور آپ نے درست تیار کیا تھا۔

گواہ نے کہا کہ نقشہ میں نے موقع پر انسپکٹر کی ہدایت پر تیار کیا تھا اور اسے درست کہا تھا۔

سماعت ملتوی کرنے سے قبل عدالت نے مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کو کٹہرے میں طلب کیا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے بچے کو سمجھائیں، وہ کمرہ عدالت میں کیا کہہ رہا ہے۔

جس پر ملزم کی والدہ نے ظاہر جعفر کی ذہنی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس کی حالت کیا ہے۔

ملزم کے وکیل اسد جمال نے کہا کہ ’ہم اس کا علاج کرا لیتے ہیں‘۔

جس پر جج نے ریمارکس دے کہ ملزم کو آرام سے سمجھائیں۔

بعد ازاں عدالت نے ڈاکٹر، کرائم سین انچارج اور دو برآمدگی کے گواہان کو طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 10 نومبر تک ملتوی کردی۔