کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلینس “اعزاز ;”باجوہ ڈاکٹرائن” کی دنیا متعرف

 
0
231

اندر کی بات؛ کالم نگار؛ اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 26 جون 2022 (ٹی این ایس): پوری دنیا باجوہ ڈاکٹرائن کی متعرف ہوچکی ھے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی عرب حکومت کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون میں اہم کردار ادا کرنے پر “کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلینس “اعزاز سے نوازا گیاہے۔ جو اقوام عالم میں پاکستانی قوم کےلئے بھی ایک اعزاز ہے رب العزت نے جو عزت و مرتبہ جنرل قمرجاوید کو عطاکیاہے اس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے

11نومبر 1960 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیدا ہونے والے قمر جاوید باجوہ نے 1978 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شمولیت حاصل کی اور بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا ۔29 نومبر 2016 کو اُس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاکستان آرمی کا دسواں سربراہ مقرر کیا جس کی مدت نومبر 2019 تک تھی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے جنرل قمر باجوہ کو مزید تین سال یعنی 2022 تک آرمی چیف برقرار رکھا ۔ دنیا کے انتہائی قابل اعتبار جریدے فوربس نے پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو دنیا کا اڑسٹھویں نمبر پر طاقتورترین شخص قرار دیا سعودی عرب نے پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرڈر آف شاہ عبدالعزیز اعزاز سے نوازا ہے جو مملکت کے بانی کے نام پر ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہ سلمان کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے ’سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کو مضبوط اور ترقی دینے میں جنرل باجوہ کی نمایاں کوششوں کو سراہتے ہوئے‘ انہیں کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس سے نوازا۔جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ روز سعودی عرب کے دورے پر پہنچے تھے۔ سعودی ولی عہد اور پاکستان کے آرمی چیف نے ملاقات بھی کی ’اور دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لیا، خاص کر فوجی شعبوں اور ان کو ترقی دینے کے مواقع پر۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشترکہ دلچسپی کے کئی مسائل پر بھی بات چیت کی۔

‘چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرڈر آف شاہ عبدالعزیز کو اعزاز دن عطا کرنے کی تقریب میں سعودی نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ سعودی عرب کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل فیاض الرویلی اور دونوں اطراف کے کئی سینئر حکام موجود تھے۔ پاکستان بری فوج کی قیادت اب تک 16جرنیل سر انجام دے چکے ہیں۔مگر باجوہ ڈاکٹرائن کی اصطلاح سے مقبولیت کی بلندی چھونے کااعزاز جنرل قمر جاوید باجوہ کے حصہ میں آیا ہے۔دشمن چاہے ملک کے اندر ھو یا باہر جنرل باجوہ نے اپنی ڈاکٹرائن سے ان کودندان شکن جواب دیا ھے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کو سعودی عرب کی جانب سے کنگ عبدالعزیز میڈل ملنے پر مبادکباد دی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کو پاکستان سعودی عرب تعلقات کو فروغ دینے پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کنگ عبدالعزیز میڈل پاکستان عوام اور مسلح افواج کے لیے بڑا اعزاز ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب کی سلامتی کو پاکستان کی سلامتی تصور کرتے ہیں ہم دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کےعزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے بعد آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز تھے ۔آرمی چیف کی ہدایت پر ملک بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حتمی آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا۔جنرل باجوہ کی سکیورٹی پالیسی کا منفرد پہلو یہ تھا کہ انھوں نے کارروائیوں کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں سے مذاکرات بھی کیے حریک طالبان پاکستان، جیے سندھ قومی محاذ، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچ علیحدگی پسندوں اور پنجابی طالبان کے ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کو دی گئی معافی کا سلسلہ جنرل باجوہ کے دور میں تکمیل کو پہنچا۔افغانستان سے متصل سرحد پر حفاظتی باڑ اور سرحدی قلعوں کی تعمیر سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی آئی۔ اس کے ساتھ بحالی اور تعمیر نو کے لیے سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں درجنوں ترقیاتی منصوبوں کو بھی مکمل کیا گیا۔ جنرل باجوہ کے دور میں ’فوجی سفارتکاری‘ کا تصور سامنے آیا ہے جس سے ان کے غیر ملکی دوروں، پاکستان آئے غیر ملکی وفود سے ملاقاتوں اور خصوصاً افغان طالبان اور امریکہ میں مذاکرات میں کردار سمجھنے میں مدد ملی جنرل باجوہ کا شخصی تاثر آرمی چیف کے عہدے سے پہلے بھی کسی سخت گیر جرنیل کا نہیں رہا جنرل باجوہ جونیئر فوجی و سول افسران سے روایتی تحکمانہ انداز کی بجائے بے تکلف ہو کر ملتے ہیں ۔ان سے ملاقات کرنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد اس تاثر کی تائید کرتے ہیں۔

۔سابق وزیراعظم عمران خان بھی کہتے رہے ہیں کہ ” انھوں نے جنرل باجوہ سے زیادہ متوازن اور جمہوری آدمی فوج میں نہیں دیکھا اور وزارت عظمیٰ کے آغاز میں ہی طے کر لیا تھا کہ جنرل باجوہ ہی آرمی چیف رہیں گے”۔ جنرل باجوہ کو قومی ترقیاتی کونسل کا حصہ بھی بنایا گیا جس کا مقصد ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہے سابق دور حکومت میں کرتار پور راہداری، پلوامہ حملہ کشیدگی، آسیہ بی بی کیس کے بعد احتجاج سے نمٹنا، کرپشن کے خلاف اقدامات، کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے پر احتجاج جیسے ملکی و بین الاقوامی معاملات میں آرمی چیف کا کردارمثالی رہا ۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعلق ایک اصطلاح اکثر سننے میں آتی ہے جسے ‘باجوہ ڈاکٹرائن’ کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال پہلی بار 2018 میں اس وقت کےفوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ‘باجوہ ڈاکٹرائن’ ملک میں دیرپا امن یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔ اگرچہ یہ اصطلاح سرکاری نوعیت کی نہیں تھی۔ لیکن اس سے مراد جنرل باجوہ کا ملک میں امن کی صورتِ حال برقرار رکھنے کی کوششیں، سویلین اور ملٹری تعلقات پر ان کے نظریات اور بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کے سفارتی تعلقات بہتر کرنے میں جنرل باجوہ کی معاونت ہیں۔ باجوہ ڈاکٹرائن’ سے مراد یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے اندرونی و بیرونی دفاع کی ضروریات کو کیسے دیکھتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے پاکستان کو اندرونی حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے ردّالفساد جیسے آپریشن کیے جو اسی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اندرون و بیرون ملک حملوں میں ملوث عوامل کا مکمل خاتمہ جنرل باجوہ کا اہم ترین کارنامہ ہے۔ اس میں لشکرِ طیبہ جیسی کالعدم تنظیمیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے ‘باجوہ ڈاکٹرائن’ اصطلاح سے مراد جنرل باجوہ کی پروفیشنل کارکردگی میں ان کا منفرد انداز ہے جس میں ان کا ذاتی مزاج بھی شامل ہے۔

جنرل باجوہ فوج اور حکومت کے درمیان خوش گوار تعلقات استوار کرنے پر یقین رکھتے ہیں جب کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششیں بھی ان کے ڈاکٹرائن کا نتیجہ ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ مراسم بہتر کرنے کے لیے ڈائیلاگ اور مصالحتی انداز اپنانا بھی باجوہ ڈاکٹرائن کا ہی عکاس ہے۔ رد الفساد‘ آپریشن میں اب تک بیشتر کارروائیاں انٹلیجنس معلومات کے تحت کی گئی ہیں جس کا دائرہ فاٹا اور خیبر پختونخوا سے لے کر کراچی، بلوچستان اور پنجاب کے صوبوں تک پھیلا دیاگیا ۔رد الفساد‘ کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرناہے اور یہ کہ اس آپریشن سے سرحدوں کی سکیورٹی بھی یقینی بنانا ہے جس میں مسلح افواج کو اب تک لازوال کامیابی حاصل ہوئی۔ پچھلے ہفتے بڑی تگ و دو کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی جو اُمیدبر آئی ہے اس کا سارا کریڈٹ ’’جی ایچ کیو‘‘میں قائم کورسیل کی حکمتِ عملی سے ممکن ہواجس کا برملا اظہار جنرل قمر جاوید باجوہ 17جون کو اپنے ایک بیان میں کر چکے ہیں۔ جنرل باجوہ کا ایسا کہنا اس لئے بھی درست ہے کہ سول حکومت کچھ بھی کر لیتی فوج کی منشا کے بغیر ایسا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا، ایسے میں یہ سمجھنا اور کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ملک میں دہشت گردی کی سوچ اور دیگر کریمنل ایکٹیویٹز کے سدباب میں جزوی بہتری کے حالات کے پس پردہ بھی جنرل باجوہ کی 2018سے چلی آ رہی سوچ یا ڈاکٹرائن ہی کار فرما ہے۔’’ باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کی ٹرم جوخود افواج پاکستان نے اپنی پالیسیوں کے حوالہ سے استعمال کی ہے ،کے مطابق مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور افغانستان کی سکیورٹی کے لئے کافی سے بھی زیادہ کام کیا اور بیشمار جانوں کی قربانی بھی دی ہے چنانچہ اب اس ضمن میں پاکستان سے مزید مطالبات بے معنی ہوں گے۔

باجوہ ڈاکٹرائن کےذریعے یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پاک فوج کی آج کی پالیسی 18 سال پہلے پرویز مشرف کی پالیسی سے مختلف ہے آج پاکستان کو ان دھمکیوں سے فرق نہیں پڑتا کہ اسے ملنے والی امریکی امداد میں کٹوتی یا اس کا خاتمہ ہوگا۔ ’روسی‘ کے مذکورہ تجزیے سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو دنیادہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں اوران گنت قربانیوں کا بتدریج احساس کر رہی ہے اور برطانیہ وہ واحد ملک ہے جو حالیہ چند سال سے پاکستان کے زیادہ قریب ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ برطانیہ اس حقیقت کو بھی سمجھ رہا ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے عناصر کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دینی چاہئے اور نہ ہی مالی امداد فراہم کرنی چاہئے ۔ یقیناًیہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے ’’بلوچستان لبریشن آرمی ‘‘جیسی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ برطانیہ سمجھتاہے کہ اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل سے زیادہ اس کے ساتھ معاشی تعلقات میں بہتری لانے کے لیے آگے بڑھنا چاہئے ۔ ’’روسی‘‘ ہو یا برطانیہ کے دیگر تھنک ٹینکس ان کی مختلف رپورٹس میں واضح ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے اور اپنے ہاں ہونے والے کسی بھی دھماکے یا دہشت گردی کی کارروائی کا بغیرکسی تحقیق و تفتیش کے پاکستان پر الزام لگادیتا ہے۔ مثال کے طور پر 26 نومبر 2008 کو ممبئی اٹیک کی ذمہ داری بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ اس ضمن میں ایک فلسطینی نژاد معروف آسٹریلوی محقق ایلیس ڈیوڈسن کی رواں سال فروری میں آنے والی تہلکہ خیز تصنیف THE BETRAYAL OF INDIA پڑھنے کے لائق ہے جس کے 25 ابواب اور 900 صفحات میں مصنف نے 26/11 یعنی ممبئی اٹیک کی اصلیت کو عیاں کر کے رکھ دیا ہے یہی وہ مصنف ہے جس کی ایک دوسری کتاب Hijacking America’s Mind on 9/11نے امریکی ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دیا تھا۔ اس نے ثابت کیا تھا کہ امریکہ کے پاس سرےسے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ 9/11کے حملوں میں کوئی بھی مسلمان ہائی جیکر ملوث تھا ۔ممبئی حملے کے پس پردہ حقائق بیان کرتے ہوئے ایلیس ڈیوڈسن نے بتایا ہے کہ 26/11 کا ماسٹر مائنڈ ’’امریکی سی آئی اے‘‘ کا ایک ایجنٹ ہیڈ لے تھا اوریہ امریکہ ‘برطانیہ‘ اسرائیل اور انڈین’’ را ‘‘کی ایک مشتر کہ سازش تھی تا کہ اسلاموفوبیا کو ہوا دے کر پاکستان کو براہ راست اس کا ذمہ دارقرار دیا جائے اور پاکستان کو غیر مستحکم اور اس کے ایٹمی اثاثوں اورصلاحیت کو کمزور اورپھرختم کر دیا جائے اور یہ سب مغربی ملکوں کی لانگ ٹرم پلاننگ کا حصہ تھا۔ مصنف کے مطابق نیٹو بھی 26/11 کی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔ 17 فروری 2018 ء کو یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تو مغربی دنیا کے علاوہ خصوصی طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیوں ،حکومتی پراثر انداز ہونے والے اداروں اور میڈیا میں افراتفری کا عالم تھا۔ایلیس ڈیوڈسن کی کتاب ’’انڈیا کا دھوکہ‘‘ کے سرورق پر ممبئی کے ہوٹل تاج کی معروف تصویر ہےاور کتاب کے 900صفحات نے بھارتی منصوبہ سازوں اور اس کے مغربی حریفوں کی پاکستان کے خلاف سازش کے وہ تمام تارو پود بکھیر کر رکھ دیئے ہیں جو انہوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے بنے تھے۔

مصنف نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ بتایا ہے کہ اس واقعہ کے دوران ممبئی میں یہودی سنٹر یا عبادت گاہوں پر حملہ بھی اس منصوبے کا ایک حصہ تھا۔دوسری جانب’رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ‘‘ نے اپنی مختصر رپورٹ میں باجوہ ڈاکٹر ائن کی جن چند کامیاب پالیسیوں کا ذکر کیا ہے شاید علیحدگی پسند بعض بلوچ لیڈروں کی طرف سے پاکستان کو اپنا وطن تسلیم کر کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان بھی اسی پالیسی کے’’فیوض‘‘ میں شامل ہے۔ایک غیرملکی جریدے ’’یوروایشیا ‘‘نے اپنی 24فروری 2018ء کی اشاعت میں ایک سابق علیحدگی پسند لیڈر جمعہ خان مری بلوچ کا انٹرویو شائع کیا ہے جس کے مندرجات کے مطابق 50 سال کی علیحدگی تحریک کے بعد وہ تائب ہوا اور پاکستان کی وفاداری کا حلف لیا، جمعہ خان مری 1970 ء میں باغی بلوچوں کے گروہ میں شامل ہوا لیکن 48 سال بعد 17 فروری کو روس میں پاکستان یونٹی ڈے کی ایک تقریب میں اس نے’’ آزاد بلوچستان ‘‘کی تحریک سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ مذکورہ جریدے کوانٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ میں 1960-1970ء کے آپریشن کے دوران اپنے والد میر ہزار خان مری اور فیملی کے ساتھ کا بل چلا گیا اور پھر وہاں سے ماسکو جا کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ جمعہ خان نے یہ بھی کہا کہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ پاکستان اگرآج اشارتاً بھی یہ کہہ دے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے تو وہ اگلے ہی روز بلوچ تحریک کی پشت پناہی کرنا چھوڑ دے گا۔ چنانچہ سب قرائن بتاتے ہیں کہ باجوہ ڈاکٹرائن کامیاب رہا ہے۔جنرل باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میںچار وزرائے اعظموں کے ساتھ کام کیا ہے تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کا ساتھ صرف آٹھ ماہ کا تھا عمران خان, نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ادوار میں تعلقات کو مثالی نہیں دیا کہا جا سکتا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دفاعی بجٹ میں رضاکارانہ طور پر کمی کے فیصلے کے بارے میں کہا تھا کہ ‘یہ اقدام قوم پر احسان نہیں کیوں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اکٹھے ہیں۔انڈیا اور پاکستان کے دفاعی بجٹ میں بہت فرق ہے۔

انڈیا اپنے دفاع پر 47 ارب ڈالر لگاتا ہے جبکہ پاکستان کے دفاعی اخراجات 7 ارب ہے۔پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلیٰ عسکری قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہر کرتے ہوئے در پیش چیلنجوں سے بخوبی نمٹا اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک سے بھی داد وصول کی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلیٰ سفارتکاری کی صلاحیتیں بھی ثابت کر دیں، انہوں نے چین، روس امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب میں پاکستان کا مؤقف واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جنرل باجوہ نے سی پیک منصوبے کو آگے بڑھانے اور بلوچستان میں ترقیاتی پروگرام آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، 27 فروری جنرل باجوہ کی جنگی حکمت عملی کی برتری کا دن تھا جب پاکستان نے بھارت کو زبردست عسکری دھچکادیا ، جنرل باجوہ کی اعلیٰ حربی حکمت عملی کو باجوہ ڈاکٹرائن کا نام بھی دیا جاتا ہے۔باجوہ ڈاکٹرائن یہ بھی ہے کہ پاکستان اخلاص اور اخوت کے تمام جذبوں کے ساتھ برادر ہمسایہ افغانستان میں کامل امن کا خواہشمند ہے ۔ اس کے حصول کے لیے پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرف سے تمام تر اعانت فراہم کی جارہی ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں دہشتگردوں کے عزائم کوناکام بنانے کے لیے بھی موثر حکمت عملی اپنائی گئی ۔ تقریبا دو ہزارمذہبی اسکالرز نے دہشت گردی و انتہاء پسندی کیخلاف ،پیغام پاکستان ، کےنام سے فتویٰ جنرل باجوہ کے ایماء پر ہی دیا۔اب توانڈونیشیا کی حکومت بھی پیغامِ پاکستان کے تتبع میں ایک فتوی تیار کرنے کے مراحل میں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ قیامِ امن کے لیے باجوہ ڈاکٹرائن کو عالمِ اسلام میں بھی مقبولیت مل رہی ہے۔