یوم یکجہتی کشمیر کا دن  ….مظلوم کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پانچ فروری کا دن بھرپور جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے ۔اس سلسلہ

 
0
177

 میں آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر میںجلسوں، کانفرنسوں، ریلیوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ان پروگراموں میں تحریک آزادی کشمیر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ05 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پر اندرون و بیرون ملک پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں سے بھرپور یک جہتی کا اظہار کریں گے کشمیری شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 5 فروری کو پورے ملک میں صبح10بجے کر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔ شاہراہ دستور اسلام آباد پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے لیے ریلی بھی نکالی جائے گی۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف مظفرآباد جائیں گے اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
05 فروری کی مناسبت سے بیرون ملک قائم پاکستانی مشنز خصوصی ریلیز، سیمینارز اور تصویری نمائشوں کا انعقاد کررہے ہیں۔ اسلام آباد میں پی این سی اے اور لوک ورثہ میں تین روزہ تقاریب جاری ہیں جن میں کشمیری ثقافت کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے حوالہ سے وزارت اطلاعات و نشریا ت، پی ٹی وی ، اے جے کے ٹی وی ورلڈ اور ریڈیو کے ذریعے مختلف پروگرا مز نشر کئے جائیں گے۔ سول ایوی ایشن، پاکستان ریلوے، میٹرو بس اور این ایچ اے ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنز، میٹرو بس اسٹیشنز اور ٹول پلازوں پر یوم یکجہتی کشمیرکے حوالے سے بینرز آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ سی ڈی اے نے بھی اسلام آباد کی تمام اہم شاہراہوں پر یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے بینرز آویزاں کئے ہیں۔ تمام صوبائی حکومتوں اور گلگت بلتستان نے اس دن کے حوالے سے خصوصی تقاریب، سیمینارز، تصاویری نمائشوں، ریلیز، تقریری مقابلوں، جلسے جلوس، سکول اورکالجزمیں مضمون نویسی جیسی سرگرمیوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ تمام صوبوں کے ڈویثرنل اورڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز میں بھی یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں۔ آزادکشمیر حکومت نے بھی یوم یکجہتی کشمیر منانے کے حوالے سے بھرپور انتظامات کر رکھے ہیں۔ ایل او سی کی دوسری جانب یکجہتی سے بھرپور پیغام پہنچاجارہا ہے۔ مظفر آباد اور آزادکشمیر کے دیگر ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرز میں بھی خصوصی ریلیز، سیمینارز، تصویری نمائشوں مضمون نویسی اور تقاریری مقابلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے، پاکستان سپورٹس بورڈ نے سپورٹس کمپلیکس میں اس دن کی مناسبت سے ایک فٹ بال میچ اور ہاکی میچ کا بھی انتظام کر رکھا ہے .پانچ فروری کا دن سب سے پہلے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا گیا جسے بعد میں سرکاری سرپرستی میں منایا جانے لگا اور آج اس دن پوری دنیا میں کشمیریوں کے حق میں ایک مضبوط آواز بلند ہوتی ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر آج ہم ان حالات میں منا رہے ہیں کہ بھارت کی بی جے پی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و دہشت گردی کی انتہا کر رکھی ہے۔

ہر آنے والے دن بھارتی فوج کے مظالم میں شدت پیدا ہو رہی ہے اور کشمیریوں کی قتل و غارت گری کی طرح ان کی جائیدادیں اور املاک برباد کی جارہی ہیں۔ابھی چند دن قبل ہی بھارتی نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پر وادی کشمیر میں نہتے عوام پر بدترین مظالم ڈھائے گئے اور نام نہاد سرچ آپریشن اور چھاپہ مار کاروائیوں کے نام پرکئی کشمیری شہید کر دیے گئے۔بھارتی فورسز کی طرف سے حالیہ دنوں میں جموں میں خاص طورپر مسلمانوں کے گرد گھیراتنگ کیا گیا ہے اور ہندوانتہاپسند تنظیموں کے بھگوا دہشت گرد نہتے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنا رہے ہیں۔ کشمیریوں کو زبردستی علاقوں سے بے دخل کیا جارہا ہے اورحریت قائدین کے مطابق ہندوانتہاپسندوں مندروں میں اسلحہ جمع کر رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کو بھی دوبارہ فعال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور انتہاپسندوں کے لیے تنخواہوں کا بھی اعلان کیا گیا ہے تاکہ انہیں مسلمانوں پر مظالم کے لیے اور زیادہ شہ دی جائےمقبوضہ کشمیر میں قابض ہندوستانی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کا خون بہانے کا یہ سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ نوے کی دہائی سے لے کراب تک تقریبا پونے دو لاکھ افرادشہید کئے جاچکے۔ بتیس ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں اور چودہ ہزار سے زائد کی عصمت دری کی گئی۔اس میں 1981ء میں پیش آنے والے سانحہ کنن پوش پورہ جیسے واقعات بھی ہیں جب ایک ہی رات میں ایک سو سے زائد خواتین کو اجتماعی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔پونے دو لاکھ کے قریب مکانات تباہ کر دیے گئے۔دس ہزار سے زائد کشمیری ابھی تک لاپتہ ہیں جن کے متعلق خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مختلف علاقوں سے ملنے والی اجتماعی قبروں میں یہی لوگ مدفون ہیں۔صرف برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک دس ہزار افراد پیلٹ گن کے چھروں سے زخمی ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں کشمیری ایسے ہیں جن کی ایک آنکھ یا دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی۔جنیوا کنونشن کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جرم ہے لیکن بھارتی فوج اسرائیل سے درآمد شدہ ایسے کیمیائی ہتھیاراستعمال کر رہی ہے جس سے انسانی جسم گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بھارت کی نو لاکھ فوج نے بدترین ظلم و جبر اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے اس وقت کشمیری قوم کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اگرچہ بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے تاہم خاص طور پر جب سے آرٹیکل 370اور 35اے جیسی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کی گئی ہیں کشمیریوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کشمیری مردوخواتین، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی ہو۔ محض ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کیلئے فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کو شہید کرنا معمول بن چکا ہے۔بھارتی فوج تحریک آزادی کشمیر کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حریت قائدین اور کشمیری تنظیموں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور جماعت اسلامی جیسی تنظیموں پر پابندیاں لگائی گئیں تو انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی مقامی تنظیموں، یتیم خانوں اور دیگر اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کے دفاتر بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ بھارتی فوج نام نہاد خفیہ ادارے این آئی اے اور سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی کو کشمیر میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ اس وقت پوری کشمیری قیادت جیلوں میں قید یا نظربند ہے۔انہیں ہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق گھروں کے قریب جیلوں میں رکھنے کی بجائے انڈیا کی جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے جہاں انہیں ناقص خوراک دے کر سلو پوائزننگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی کشمیری قائدین سنگین نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی جیسے لیڈر بھارتی حراست میں شہید ہوئے تو محمد یٰسین ملک اور سیدہ آسیہ اندرابی جیسے لیڈر بھی جیلوں میں بیماری کے ایام گزار رہے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق بھی پچھلے تین سال سے زائد عرصہ سے مسلسل قید ہیں۔ ڈاکٹر محمد قاسم فکتوکو تاحیات عمر قید کی سزا سنائی جاچکی۔فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین کو پاکستانی پرچم لہرانے کے جرم میں تہاڑ جیل میں سیدہ آسیہ اندرابی کے ساتھ قیدرکھا گیا ہے اور انہیں بھی عدالت کے ذریعے جھوٹے مقدمہ میں سزاسنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ مسرت عالم بٹ جنہیں سید علی گیلانی کے بعد حریت کانفرنس کا نیا چیئرمین مقرر کیا گیا، وہ بھی طویل عرصہ سے قید ہیں۔ اسی طرح شبیر احمد شاہ اور دیگر بیشتر مقامی لیڈر بھی جیلوں میں قید ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کیلئے بھرپور انداز میں سفارتی مہم چلائیں۔دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کیا جائے اور ان میںکشمیر ڈیسک فعال کر کے قابل ترین افراد کوبھارت کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں لابنگ کی ذمہ داری سونپی جائے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی پوری قوت سے جاری ہے اورچناروں کی سرزمین کشمیر کی آزادی تک ان شاء اللہ جاری رہے گی۔ کشمیریوں کی قربانیوں کی بدولت وہ وقت دور نہیں ہے جب غاصب بھارت کو اپنی نولاکھ فوج جنت ارضی کشمیر سے نکالنا پڑے گی اور مظلوم کشمیری قوم کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت مل کر رہے گا۔بابائے قوم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس کا ایک حصہ آج بھی دشمن کے قبضہ میں ہے، یہ بابائے قوم کی بصیرت تھی کہ انہوں نے جسم کی حفاظت کی خاطر اس کی شہ رگ کو ہر صورت دشمن کے قبضہ سے چھڑا کر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی و خود مختاری کو یقینی اور محفوظ بنانے کے لیے کشمیر بزور شمشیر کی حکمت عملی اختیار کرنے میں دیر نہیں لگائی حالانکہ پاکستان اس وقت ابھی خود نومولود ریاست تھا اور بے شمار مادی و افرادی مسائل سے دو چار تھا، وسائل نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں تھی تاہم یہ جذبہ جہاد کی برکت تھی کہ مجاہدین کشمیر کا اچھا خاصا حصہ دشمن سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے مگر پھر بوجوہ جہاد روک دیا گیا اور ہم استعمار کے آلہ کار،

اقوام متحدہ نامی ادارے میں کئے گئے وعدوں کے فریب میں آ گئے، پوری دنیا کے سامنے ایک نہیں کئی بار ہم سے یہ وعدے کئے گئے کہ کشمیر کے باشندوں کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں یا بھارت سے… مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، کے مصداق کشمیری عوام کو حق خوداردیت دینے کی اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پون صدی مکمل ہونے کو ہے، وادی کشمیر، پاکستان کی شہ رگ،ہنوز پنجۂ ہنود میں جکڑی ہوئی ہے اور اس سے مسلسل لہو ٹپک رہا ہے بھارت کی آٹھ لاکھ کے قریب مسلح افواج نے بندوق کی نالی کے زور پر غیر قانونی طور پر ظلم اور جبر کے ذریعے وادی کشمیر پر اپنا تسلط جما رکھا ہے، اور خطۂ کشمیر طویل عرصہ سے ایک بڑی اور کھلی جیل کا روپ دھارے ہوئے ہے، پانچ اگست 2019ء کو بھارت میں بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو منسوخ کر دیا، کشمیری عوام کے احتجاج کے پیش نظر پوری وادی فوج کے محاصرے میں دے دی گئی، تمام کشمیری قیادت کو نظر بند کر دیا گیا… عوام کی زندگی اجیرن ہے، وہ تمام انسانی حقوق اور بنیادی سہولتوں سے محروم طویل عرصہ سے فوجی محاصرے کی حالت میں ہیں، جرأت و استقامت اور عزیمت کے کوہ گراں کشمیری قائد سید علی گیلانی اور ان کے جانشین اشرف صحرائی، اسی دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے، داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں مگر کشمیری آج بھی فوجی سنگینوں کے سائے تلے عقوبت خانہ میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں،