اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیر اعظم پاکستان کا ماحولیاتی تحفظ کے لیے مالی معاونت پر زور

 
0
25

اسلام آباد (ٹی این ایس) .پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ممالک میں شامل ہے پاکستان کواس وقت مون سون کی شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور تباہ کن سیلاب کا سامنا ہے اس موسمیاتی آفت سے 50 لاکھ سے زائد افراد اور 4,100 دیہات متاثر ہوئے ہیں جبکہ 1,000 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں , پاکستان کا ماحولیاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کا عزم پختہ اور غیر متزلزل ہے، پاکستان نے 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بغیر کسی شرط کے 15 فیصد کمی کا وعدہ کیا تھا۔ مجموعی 50 فیصد کمی کے ہدف کے تحت پاکستان پہلے ہی اپنے غیر مشروط 15 فیصد کمی کے وعدے کو پورا کر چکا ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہےکہ پاکستان کا کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے باوجود اس سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور انہوں نے عالمی برادری پر ماحولیاتی تحفظ کے لیے مالی معاونت کے وعدے پورے کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اور برازیل کے صدر کی جانب سے بدھ کو امریکی شہر نیویارک میں منعقدہ سپیشل کلائمیٹ ایونٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمارا ماحولیاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کا عزم پختہ اور غیر متزلزل ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی اداروں کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں محض 0.88 فیصد کا حصہ دار ہونے کے برعکس غیر متناسب طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، شدید گرمی کی لہروں، غیر متوقع بارشوں، برفانی پگھلنے، سیلاب میں اضافہ اور پانی کی کمی سے متاثر ہے۔ کلائمیٹ چینج پرفارمنس انڈیکس کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان نے 2021 میں ایک نظرثانی شدہ قومی سطح پر طے کردہ شراکت پیش کی۔ قومی اہداف میں 2030 تک قابل تجدید توانائی کو توانائی کے مرکب کے 60 فیصد تک بڑھانا شامل ہے، جس کے لیے اس سال تک 100 ارب امریکی ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ کلائمیٹ سمٹ 2025 سے خطاب میں پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ ’قرضوں پر قرضے مسئلے کا حل نہیں ، عالمی برادری ماحولیاتی تحفظ کیلئے مالی معاونت کے وعدے پورے کرے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ 2035 تک پاکستان میں انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی اور پن بجلی کا حصہ بڑھا کر 62 فیصد کرنے، 2030 تک جوہری توانائی کی صلاحیت میں 1200 میگاواٹ اضافہ، 2030 تک 30 فیصد ٹرانسپورٹ کی صاف توانائی پر منتقلی، ملک میں 3000 چارجر سٹیشن قائم کرنے کے علاوہ پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا اور ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ آگے بڑھایا جائے گا۔ 2012 میں پاکستان نے اپنی قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی پر اہم فیصلہ کیا۔ اس فریم ورک میں پانی، زراعت اور حیاتیاتی تنوع جیسے شعبوں کے لیے موافقت کے اقدامات شامل ہیں۔ سی سی پی آئی کے ماہرین اس پالیسی کو ایک مضبوط نقطہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ایسے وقت میں یہاں مخاطب ہیں جب پاکستان کو مون سون کی شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور تباہ کن سیلاب کی صورت حال درپیش ہے اس موسمیاتی آفت کی وجہ سے 50 لاکھ سے زیادہ پاکستانی اور 4100 دیہات متاثر ہوئے ہیں جبکہ 1000 سے زیادہ لوگ جانوں سے جا چکے ہیں 2022 میں بھی پاکستان کو سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھے پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ہم اپنے حصے سے کہیں زیادہ نقصانات اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ عالمی برادری آئندہ نسلوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستانی وزیراعظم نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے پاکستان کے اقدامات کو اجاگر کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنے اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہا ہے، جن میں بڑے پیمانے پر شجر کاری اور جنگلات لگانا، مینگروز کے تحفظ کو یقینی بنانا، متبادل اور ماحول دوست پن بجلی کی حوصلہ افزائی، شمسی اور نیوکلیئر توانائی کو فروغ دینا شامل ہیں۔ پاکستان کے نیشنل ایڈاپٹیشن پلان پر عمل درآمد ناکافی عالمی ماحولیاتی مالی معاونت کے باعث متاثر ہو رہا ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس موقع پر کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے کلائمیٹ ایکشن کی ضرورت ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کمی کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں سے سماجی اور اقتصادی چیلنجز بڑھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات وقت کی ضرورت ہیں، عالمی ماحولیاتی کانفرنسز میں ہونے والے وعدوں پر عمل درآمد کرنا ہو گا، متبادل توانائی ذرائع کو فروغ دیتے ہوئے گرین انرجی کی پالیسی اپنانا ہو گی، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب سے مختلف خطوں میں لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے، گرین ہاؤس گیسز میں کمی کے لیے عملی اقدامات کیے جارہے ہیں اور متبادل توانائی اور گرین انرجی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے، 2022 کےسیلاب میں پاکستان نے30ارب ڈالرسے زائد کانقصان اٹھایا عالمی سطح پر کاربن گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم پاکستان گرین ہاؤس گیسز میں کمی کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے، متبادل توانائی اور گرین انرجی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ نیویارک میں موسمیاتی کارروائی پر اقوام متحدہ کا خصوصی اعلیٰ سطحی پروگرام ایک اہم اجتماع تھا، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ساتھ ہو رہا تھا، جہاں عالمی رہنماؤں نے اپنے قومی آب و ہوا کے منصوبے پیش کیے تھے۔ یہ تقریب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے منعقد ایک اہم پلیٹ فارم تھا جس کا مقصد موسمیاتی کارروائی کو تیز کرنا اور صاف توانائی کی منتقلی کو آگے بڑھانا تھا۔ تقریب میں 100 سے زیادہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی عزم کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی قومی سطح پر طے شدہ شراکتیں پیش کیں تقریب نے پیرس معاہدے کے ساتھ ہم آہنگ معیشت کے وسیع اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ نومبر 2025 میں بیلیم، برازیل میں COP30 کے لیے تیاری کر رہا ہے، جہاں اگلی دہائی کے لیے مضبوط وعدوں کی توقع ہے۔یاد رکھیں کہ 30 ویں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس بیلیم، برازیل میں منعقد ہوگی، جو عالمی موسمیاتی مذاکرات میں ایک اہم لمحہ ہے یہ سربراہی اجلاس پیرس معاہدے کی 10 ویں سالگرہ کے موقع پر ہے اور 2030 کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ایک اہم کانفرنس ہے ایمیزون میں بیلیم کا مقام جنگلات کی کٹائی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان سے نمٹنے کی عجلت کی نشاندہی کرتا ہے۔ انتہائی موسمی واقعات کی بڑھتی ہوئی تعدد کا مقابلہ کرنے کے لیے موافقت کی حکمت عملیوں کو تیز کرنے پر زورہے ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی اقدامات کی حمایت کے لیے 2035 تک سالانہ 1.3 ٹریلین ڈالر جمع کرنے پر بات چیت ہے موسمیاتی انصاف اور صنفی مساوات ایک نئے صنفی ایکشن پلان کو اپنانے کی توقعات کے ساتھ، موسمیاتی پالیسیوں میں صنفی نقطہ نظر کو ضم کرنے پر توجہ مرکوز ہے عالمی آب و ہوا کے ضابطے میں ایمیزون کے کردار کو اجاگر کرنا اور اس کے ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے کے لیے پائیدار طریقوں کو فروغ دینا ہےموسمیاتی تبدیلی کانفرنس پیشہ ور افراد کے لیے موسمیاتی پالیسیوں میں شامل ہونے کا ایک اہم موقع پیش کرتا ہے، خاص طور پر پائیدار مالیات، کارپوریٹ احتساب، اور مساوی آب و ہوا کی کارروائی کے شعبوں میں۔ توقع ہے کہ کانفرنس کے نتائج سے عالمی سطح پر سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں پر اثر پڑے گا۔ مرکزی کانفرنس سے پہلے، سربراہان مملکت کا سربراہی اجلاس 6-7 نومبر کو شیڈول ہے۔ اس تقریب میں 50,000 سے زیادہ شرکاء کو راغب کرنے کی توقع ہے، جن میں پالیسی ساز، کاروباری رہنما، اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی قیادت یو این موسمیاتی تبدیلی کے ایگزیکٹو سکریٹری سائمن اسٹیل نے پیرس معاہدے کے لیے عالمی عزم کی توثیق کرنے اور موسمیاتی کارروائی کو تیز کرنے کی اہمیت پر زور دیا، گلوبل وارمنگ کو محدود کرنے کی جانب پیشرفت اور جامع، تیز رفتار عمل درآمد کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ دوسری طرف سینیٹ قائمہ کمیٹی نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے ملک بھر کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش کی ہے سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اجلاس میں ملک بھر میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاری سے فصلوں پر ہونے والے منفی اثرات پر بریفنگ دیتے ہوئے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ چاروں صوبوں میں 2.5 ملین ایکڑ اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی، پنجاب میں زیادہ تر چاول، گنا اور مکئی کی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ جو اضلاع ملک میں متاثر ہوئے انہیں آفت زدہ قرار دیا جائے، چیئرمین کمیٹی نے ملک بھر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارشات کردیں۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی طرف سے بریفنگ پیپرز وقت پر نہ فراہم نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سیکریٹری وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی سرزنش کی کہ اب ڈیجیٹل دور ہے اور وزارت 4 گھنٹہ پہلے بریف پیپرز جمع کروا رہی ہے۔ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن کی تعیناتی کا معاملہ زیر بحث آیا، جس پر چیئرمین کمیٹی نے نئے ڈی جی کی تعیناتی کی سفارش کردی کہ جلد از جلد نیا ڈی جی تعینات کیا جائے کمیٹی میں یورپی یونین سے چاولوں کی کھیپ میں انٹر سیپشن کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر ڈی پی پی کے ڈاکٹر طارق نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ وزیر اعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کی انکوائری پر معطل افسر کمیٹی میں پیش ہوئے، کمیٹی کو بتایا کہ میری تعیناتی سے قبل کی کنسائنمٹ منسوخی پر مجھے سزا دی گئی۔ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے بریفنگ دی کہ متعلقہ افسر بارے دو انکوائریاں تھی، ایک انکوائری کا معاملہ سیٹل ہوگیا، جو ذمہ داری بنتی تھی نافذ کردی، 2005 سے 2025 تک ایک لیبارٹری سے متعلق انکوائری تھی، اس کیس میں 49 افسران کے خلاف تحقیقات کی گئیں، اس انکوائری میں کچھ ریٹائرڈ لوگ بھی شامل تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیڈر افسران کے خلاف اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نےانکوائری کی تھی،ادارے کے افسران کے خلاف انکوائری وزارت کی جانب سے کی گئی تھی، اس انکوائری میں مجھے بھی شامل کیا گیا تھا، میں اس وقت وزارت میں بھی نہیں تھا، معاملہ اب تقریباً انکوائریوں کے بعد سیٹل ہو چکا ہے۔ مزید بتایا کہ ایسے نہیں ہو سکتا ان افسران کو نکال دیا گیا جن کا وہ کام نہیں تھا،انکوائریوں کا معاملہ تفصیلی ہے اس پر ایک سب کمیٹی بنائی جائے، سب کمیٹی سارے معاملہ کو دیکھ کر تفصیلی رپورٹ کمیٹی میں دے۔ قائمہ کمیٹی نے افسران کے خلاف انکوائریز کے معاملہ پر سب کمیٹی تشکیل دے دی۔ پاکستان کا شمار ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں ہوتا ہے، 2022 میں بھی بارشوں اور سیلاب نے بہت تباہی مچائی، ہر سال ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور باقی صوبوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں، این ڈی ایم اے اہم قومی ادارہ ہے اور بہت اچھا کام کر رہا ہے2022ء میں آنے والے سیلاب سے 1739 افراد اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ اس سیلاب سے 3.2 ٹریلین روپے، یعنی 14.8 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اس سیلاب کی وجہ سے قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 3.3 ٹریلین روپے (15.2 بلین ڈالر) لگایا گیا تھا۔ 2022ء کے سیلاب کی وجہ سے ملک کے کل رقبے کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا، جبکہ تین کروڑ تین لاکھ افراد شدید طور پر متاثر ہوئے تھے، جن میں آدھی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ اس سیلاب کی وجہ سے صاف پانی کے تمام ذرائع تباہ ہو گئے تھے، یوں پانچ کروڑ 40 لاکھ افراد جوہڑوں اور سیلاب کا کھڑا پانی پینے پر مجبور ہو گئے تھے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سر اُبھارنے والی قدرتی آفات سے جو 10 ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات کس قدر واضح اور شدید ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران ملک کے درجہ حرارت میں سالانہ 0.63 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ کیا گیا،جبکہ پاکستان کے ساتھ لگنے والے بحیرہ عرب کے ساحلوں پر پانی کی سطح سالانہ ایک ملی میٹر کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ موسمیات اور آب و ہوا کے ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ آنے والے برسوں میں ان اثرات کے تیزی سے بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔ ان پیش گوئیوں کے مطابق موسمیاتی واقعات، ماحولیاتی انحطاط اور فضائی آلودگی، یہ تینوں عوامل مل کر 2050ء تک پاکستان کے جی ڈی پی میں 18 تا 20 فیصد تک کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات لوگوں کے طرزِ رہائش اور ان کے ذرائع معاش پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں حصے دار نہیں ہیں، نہ ہی ان کا ان تبدیلیوں میں کوئی براہ راست عمل دخل ہے۔ اس کے باوجود ان ممالک کو ان تبدیلیوں کے اثرات و نتائج کو تسلیم کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ پاکستان اس وقت کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے جو ہر سال مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز کیا ہیں؟ یہ زمین کی فضا میں موجود ایسی گیسز ہیں جو زمین کی سطح کا درجہ حرارت بڑھاتی ہیں، جو چیز انہیں دیگر گیسوں سے ممتاز کرتی ہے‘ یہ ہے کہ وہ اس ہیٹ ریڈی ایشن کو جذب کر لیتی ہیں جو سیارہ خارج کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں گرین ہاؤس اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ انسانوں کی جانب سے ایسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جن سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور یہی بڑھتا ہوا درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ ہے۔انسان کی جانب سے تیل، گیس اور کوئلے کا بڑھتا ہوا استعمال اور جنگلات کا تیزی سے کاٹا جانا ایسے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھ رہی ہے اور زمین کی سطح کا درجہ حرارت بھی۔ یہ درجہ حرارت کس رفتار سے بڑھ رہا ہے اس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ اب تک دنیا کا مجموعی درجہ حرارت تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ پاکستان سمیت کئی خطوں میں تیز اور بے موسم کی بارشیں، ریکارڈ برف باری، ہوا میں نمی کے تناسب کا معمول سے زیادہ بڑھنا یا کم ہونا، کہیں زیادہ سردی پڑنا یا زیادہ گرمی پڑنا یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کے نو فیصد سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل برائے موسمیاتی تبدیلی اقوام متحدہ کا ایک بین الحکومتی ادارہ ہے، جس کا کام انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں سائنسی معلومات کو آگے بڑھانا ہے۔ اس ادارے نے خبردار کیا ہے کہ گرمی کی شدت اور بن موسم بارشوں نے پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے اور اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھ سکتی ہے اور اگر یہ بڑھی تو پاکستان جو پہلے ہی غذائی تحفظ کے لحاظ سے شدید خطرے کا شکار ہے، مزید مسائل میں گھر جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے برسوں میں اہم غذائی اور نقد آور فصلوں جیسے گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی کر چکا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمیں بے حد محتاط ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب ہم نہیں ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ جانے کی وجہ سے ان سے بچنا ہم پر لازم ہو چکا ہے۔ اس کے لئے عالمی سطح پر اقدامات کے لئے تو واویلا یقینا جاری رکھنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر فرد کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لئے اپنے حصے کا کردار بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں اور مشینوں کا استعمال کم کرنا، پیدل چلنا، ورزش کرنااور زیادہ سے زیادہ درخت لگانا انفرادی سطح پر ایسے اقدامات ہیں، جن کے ہمارے ماحول اور موسموں پر مجموعی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔