اسلام آباد (ٹی این ایس) غزہ جنگ کے دو سال مکمل: لیکن امن معاہدہ نا مکمل

 
0
19

اسلام آباد (ٹی این ایس) غزہ جنگ کے دو سال مکمل لیکن ٹرمپ امن معاہدہ نا مکمل ہے . غزہ پر اسرائیلی فوج کےحملوں کا سلسلہ جاری, مزید 8 فلسطینی شہید ہوگئے گزشتہ 2 سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نیتجے میں اب تک 67 ہزار 173 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے نافذ کی گئی غذائی قلت سے 460 افراد انتقال کرگئے جس میں 154 معصوم بچے شامل ہیں۔دوسری جانب حماس اور اسرائیلی حکومت کے درمیان مصر میں بلاواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک نے 20 نکاتی غزہ ’امن‘ منصوبے کا خیرمقدم کیا ہےلیکن جب حقائق یہ کہ فلسطینیوں کو ہتھیار ڈالنے، اسرائیل کو مکمل آزادی اور غزہ کو نوآبادیاتی علاقہ بنانے کے بارے میں کھلے ہیں تو وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہو گیارپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس منصوبے میں چند تبدیلیاں کی ہیں جو پہلے اس مسودے میں پہلے موجود نہ تھیں کہ جب امریکی صدر ن مسلم ممالک کے رہنماؤں کی بیٹھک میں اسے پیش کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شاید وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو وضاحت دینا پڑی کہ یہ ہماری دستاویز نہیں‘ حالانکہ وزیر اعظم شہباز شریف پہلے اس کے لیے پُرجوش تھے۔ دیگر مسلم ممالک بشمول سعودی عرب، مصر اور ترکیہ بھی امریکا اور اسرائیل کے اقدام کے لیے تیار نہ تھے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنے 20 نکاتی منصوبے کو دو سال سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے ایک تاریخی معاہدے کے طور پر بیان کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ظالمانہ قبضے کے سامنے فلسطینی مزاحمت کے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں ہے۔ اس مسودے نے صہیونی افواج کی طرف سے کی جانے والی نسل کشی کی ایک طرح سے حمایت کی ہے جس میں ہزار وں افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ مقبوضہ سرزمین کی پوری آبادی کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ منصوبہ واقعی یہ کہنے کا ایک طریقہ ہے کہ جنگی جرائم کا مرتکب ملک جیت گیا ہے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے نام نہاد امن منصوبے کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ صدر کے طور پر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ابراہم معاہدے کے پیچھے بھی جیرڈ کشنر ہی محرک تھے۔ اپنی طرف سے ٹونی بلیئر نے بطور وزیرِ اعظم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیار رکھنے کے جھوٹے دعووں کی بنیاد پر عراق پر امریکی قیادت میں ہونے والے حملے اور قبضے کی حمایت کی تھی۔ عرب دنیا اور برطانیہ میں بھی بہت سے لوگ انہیں جنگی مجرم سمجھتے ہیں۔ یہ حیران کُن نہیں کہ اسرائیل نے تازہ ترین امریکی منصوبے کو فوراً قبول کر لیا تھا ۔ پریس کانفرنس میں ٹرمپ کے ساتھ موجود اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو جن پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے، اسکے پاس امریکی رہنما کی تعریف کے سوا کچھ نہیں تھا جنہوں نے کہا کہ ’حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو میری مکمل حمایت حاصل ہو گی امن منصوبے کو بالکل درست طور پر خطے میں اسرائیل کے فوجی تسلط کو یقینی بنانے کے لیے ’ٹرمپ-نیتن یاہو منصوبہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ حماس کو اس منصوبے کو قبول کرنے کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے جبکہ اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے گروپ سے مشاورت ہی نہیں کی گئی۔ حماس کو وقت دیا گیا ہے کہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اور اس کی تحویل میں مرنے والے اسرائیلیوں کی لاشیں واپس کی جائیں ستم ظریفی یہ ہے کہ فلسطینی جوکہ اس تنازع کے مظلوم فریق ہیں، ان سے بھی اس نام نہاد امن منصوبے پر مشاورت نہیں کی گئی حالانکہ اس کا مقصد ان کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔ پاکستان سمیت بڑے عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں نے پہلے ہی اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کو نوآبادیاتی حکومت کے تحت رکھا جائے گا۔ اس معاہدے میں مختصر طور پر مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے امکان کا صرف ایک مبہم ذکر کیا گیا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے تصور کو مسترد کر چکا ہے اگرچہ اسرائیل کو مغربی کنارے کو الحاق کرنے سے روک دیا گیا ہے لیکن کچھ سخت گیر اسرائیلی وزرا نے ایسا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ غزہ منصوبے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کے بعد جنگ فوری طور پر ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی فورسز کو صرف یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ حدود پر واپس جانا ہے اس وقت کے دوران ’تمام فوجی کارروائیاں بشمول فضائی و زمینی بمباری کو معطل کر دیا جائے گا اور جنگ اس وقت تک منجمد رہے گی جب تک کہ مکمل انخلا کے لیے شرائط پوری نہیں ہو جاتیں اس کے علاوہ ’تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بعد حماس کے ارکان جو پُرامن رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، انہیں عام معافی دی جائے گی جو اراکین غزہ چھوڑنے کی خواہش کرتے ہیں، انہیں فرار کا محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ یہ کم و بیش اس گروپ کے مکمل ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ ہے جو صہیونی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی سربراہی کر رہا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں جنگ کے بعد کے انتظامی سیٹ اپ میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی جو مقبوضہ مغربی کنارے کو کنٹرول کرتی ہے، اسے بھی جنگ کے بعد کے سیٹ اپ میں کوئی کردار نہیں سونپا گیا ہے۔ اس سے عملی طور پر فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ فلسطینی گروپوں کو جنگ کے بعد کے سیٹ اپ سے مکمل طور پر الگ رکھا گیا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جارحیت کے پیش نظر قابض افواج کے ’مرحلہ وار انخلا‘ پر بھی مکمل عمل درآمد غیر یقینی ہے۔ درحقیقت اس منصوبے نے اسرائیل کو مزید حوصلہ دیا ہے جہاں انتہائی دائیں بازو کے گروہ کی حکومت ہے جو ایک ’گریٹر اسرائیل‘ کے قیام کی کھلے عام وکالت کرتے ہیں جبکہ یہاں آزاد فلسطینی ریاست کے لیے کوئی گجائش نہیں ہے۔امریکی منصوبے کے مطابق، ’غزہ پر ایک ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی عارضی عبوری نظام کے تحت حکومت کی جائے گی‘ جو ایک نئے بین الاقوامی عبوری ادارے ’بورڈ آف پیس‘ کی نگرانی میں کام کرے گی جس کی سربراہی ٹرمپ اور ٹونی بلیئر سمیت دیگر کریں گے۔ یہ عملاً مقبوضہ علاقے پر غیر معینہ مدت کے لیے امریکا کو کنٹرول دے دے گا۔ خیال ہے کہ یہ تجویز ٹرمپ کی فروری میں غزہ کو امریکی کنٹرول میں رکھنے کی تجویز سے زیادہ مختلف نہیں ہے تاکہ انکلیو کو سیاحتی مقام میں تبدیل کیا جا سکے ٹرمپ انتظامیہ عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں تعینات کی جانے والی ایک عارضی ’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘ (آئی ایس ایف) تیار کرے گی۔ اس کے علاوہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے اس کا بنیادی کام، غزہ میں نئی بننے والئ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور مدد فراہم کرنا ہوگا۔ آئی ایس ایف میں مختلف مسلم ممالک کی افواج شامل ہوں گی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، فوجیوں کا بڑا حصہ انڈونیشیا اور پاکستان سے آئے گا، جو دو سب سے بڑی مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ ٹرمپ کی پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی تعریف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ کی جانب سے منصوبے پر پاکستان کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ آئی ایس ایف مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک اسرائیلی سیکیورٹی فورسز غزہ میں موجود رہیں گی، جبکہ ’اس کے بعد بھی اسرائیل اس وقت تک غزہ کے گرد حفاظتی زون بنائے رکھے گا جب تک کہ اسے یقین نہ ہو کہ دہشتگردی کی واپسی کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ہے‘ یقینی طور پر جنگ بندی، اسرائیلی افواج کے ہاتھوں قتل و غارت گری کا خاتمہ کرے گی اور انتہائی ضروری انسانی امداد کی اجازت دے گی۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی منصوبہ فلسطینی عوام کے آزاد ریاست کے حق کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے بغیر خطے میں طویل مدتی امن قائم کر سکتا ہے؟حماس کو غیر مسلح کیا جا سکتا ہے لیکن غزہ میں ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے دو سال سے جاری نسل کشی میں اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا؟ فلسطینیوں کی ایک پوری نسل جنہوں نے صرف موت اور بھوک دیکھی ہے، ان کے غصے پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر غزہ امن منصوبے کو پائیدار بنانا ہے تو اسے عربوں، بشمول مسیحی عربوں اور فلسطین یا اسرائیل کے یہودیوں کے بنیادی مفادات کے لیے یکساں اور منصفانہ ہونا چاہیے۔ منصوبے میں کمزوری یہ ہے کہ ٹرمپ-نیتن یاہو کی تاریخ ہے کہ وہ وعدے کرکے فریقین کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسا انہوں نے ایران اور قطر کے ساتھ کیا یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے پر اعتماد کا فقدان ہے جوکہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ تصور کریں جیسا کہ منصوبے میں ذکر کیا گیا ہے، یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آگئی مگر اب وقت گزر چکا اور ان کا جینا یا مرنا بنیامن نیتن یاہو کے قاتل نظریے کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیا ہوگا اگر اسرائیل، ٹرمپ کی حمایت سے ایران پر وسیع پیمانے پر ایک اور حملہ کردے؟ اس سے صورت حال مکمل طور پر بدل جائے گی ناں؟ اور یوں پُرامن طور پر خطے میں ایک ساتھ رہنے کا تصور ملیا میٹ ہوجائے گا۔ یہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ اسرائیل اور عرب کے درمیان امن کا وعدہ کرکے لوگوں نے امن کے نوبیل انعامات جیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامن نیتن یاہو کے اس معاملے میں کلیدی کردار ہونے کے تناظر میں، یہ صورت حال کس طرح پہلے سے مختلف ہے؟ نسل کش مخلوط حکومت کے اراکین پہلے ہی اپنے سخت مذہبی نظریات کی وجہ سے یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اپنے قریب آنے والے مسیحیوں کے چہروں پر تھوکیں یہ مسلمانوں کے ساتھ اور بری طرح پیش آتے ہیں جن سے انہوں نے ان کی زمینیں چھینی ہیں اور ان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ مکار اور قابل اعتراض بالادستی کے مذہبی احکامات کی بنیاد پر یہ زمین یہودیوں کی ہے۔ یہ بھڑکتی ہوئی لڑائی، عالمی تسلط کی جنگ لڑنے والوں کے حق میں ہے۔ اگر روس اور سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھانے کا باہمی فیصلہ کرتے ہیں تو یہ امریکی تیل کمپنیز کے برخلاف ہوگا جبکہ یہ تشدد کو بڑھانے میں کا ایک اور ممکنہ محرک ہو سکتا ہے ایسی صورت میں اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کو مارکیٹ میں تیل کی ترسیل روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر تیل کی سپلائی روکنے سے درحقیقت روس زیادہ قیمتوں سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ جیسا کہ غزہ قتل و غارت گری نے ثابت کیا ہے، خطے میں نسلی بنیادوں پر تقسیم بہت گہرائی تک سرایت کرچکی ہے۔ برطانیہ نے ایک طویل عرصے تک مذہب اور نسل کی بنیاد پر ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے اصول پر کام کیا ہے۔ اس نے یہ کامیابی سے آئرلینڈ میں لاگو کیا جس کے بعد وہ ایشیا اور افریقہ میں بھی اسی طریقہ کار پر عمل پیرا رہا۔ 1917ء میں برطانیہ نے مشرقِ وسطیٰ میں بالشوزم (کمیونزم) کو روکنے کے لیے بالفور اعلامیہ جاری کیا۔ اس اقدام نے مذہبی بنیاد پر فلسطینی سرزمین کو تقسیم کیا۔ بعد میں امریکی صدر لنڈن جانسن نے وہ لگام ڈھیلی کردی جو گزشتہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اسرائیل کے گرد سخت کی تھی تاکہ امریکا صہیونی ریاست کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ناقابلِ تسخیر اتحادی کے طور پر استعمال کرسکے۔ اس کے بعد سے امریکا اور اسرائیل کے تعلقات قائم ہیں۔ تاثر پایا جارہا ہے کہ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو سعودی حکمرانوں کی منظوری حاصل ہے حالانکہ وہ بظاہر مذاکرات سے غائب رہے۔ یہ خیال کہ ریاض نوآبادیاتی آبادکار ریاست اسرائیل کو قدیم فلسطین کے تینوں مذہبی گروہوں، مسیحیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے ایک مساوی جگہ میں تبدیل کر سکتا ہے، اس کا امکان کسی معجزے سے کم نہیں۔ مصر جس کی فوجی آمریت کو ریاض کی مالی مدد حاصل ہے، وہ مذہبی-قوم پرست اخوان المسلمون کے مصری مرکز کو قابو میں رکھنے کے لیے دیتا ہے۔ ان مذاکرات میں مصر، سعودی عرب کی طرف سے بھی نیتن یاہو کے اسرائیل سے بات چیت کررہا ہے۔
سرد جنگ عروج پر تھی کہ جب سعودی عرب رہنما علی فہد نے فاس اجلاس میں یہ تجویز پیش کی۔ پہلی بار کسی عرب رہنما کے پیش کردہ منصوبے میں خاموشی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ توقع کے مطابق عراق، شام اور لیبیا نے فہد کے دو ریاستی حل کو مسترد کردیا۔ 1973ء میں سعودی عرب نے اسرائیلی حمایت کے جواب میں امریکا کو تیل کی فراہمی کے بائیکاٹ کی مہم کی قیادت کی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ سعودی بادشاہ جس نے اس بائیکاٹ کی قیادت کی تھی، کو اس کے بھتیجے نے ہی گولی مار کر قتل کردیا۔ نئے بادشاہ جلد ہی مستقبل قریب میں اسرائیل سے لڑنے کے خیال سے پیچھے ہٹ گئے۔ برسوں بعد ٹرمپ کا نام نہاد امن منصوبہ جس میں فلسطینیوں کو اپنے وطن کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ دیا جائے گا، اس حقیقت سے سامنے آیا کہ بہت سے عرب حکمران مسئلہ فلسطین سے خوفزدہ ہیں۔ یہ معاملہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے حساس ہے۔ صہیونی پریس ٹرمپ کو فلسطینی اسکارف پہنے حماس کے حامی جبکہ نیتن یاہو کو ’گریٹر اسرائیل‘ کے مقصد سے غداری کرنے والے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ کیا فہد سعودی عرب رہنما علی فہدتجویز محض ایک مفروضہ تھا یا یہ ایک خیالی یا حقیقی موقع تھا جسے عرب دنیا نے ہاتھوں سے جانے دیا؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس منصوبے میں اصل میں کیا پیشکشیں کی گئی تھیں۔ 1967ء میں اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس سمیت تمام عرب علاقوں سے نکل جائے گا۔ 1967ء کے بعد عرب سرزمین بشمول عرب یروشلم پر بنی اسرائیلی بستیوں کو ختم کیا جائے گا۔ مقدس مقامات میں تمام مذاہب کے لیے عبادت کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔ فلسطینی پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس جا سکتے ہیں اور جنہوں نے نہ جانے کا انتخاب کیا ہے، انہیں معاوضہ ملے گا۔
مغربی کنارے اور غزہ مکمل طور پر آزاد ہونے سے پہلے اقوام متحدہ کے تحت ایک مختصر عبوری دور سے گزریں گے جو چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ خطے کی تمام ریاستیں خطے میں امن سے رہ سکیں۔ اقوام متحدہ یا اس کے رکن ممالک اس تجویز میں شامل دفعات پر عمل درآمد کی ضمانت دیں۔7 اکتوبر 2023ء کے واقعات سے قبل، اسرائیل سے زیادہ حماس کو عرب حکومتوں کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ نیتن یاہو نے قطر کے ساتھ اتحاد بنا کر مبینہ طور پر اعتدال پسند دو ریاستوں کو قبول کرنے والی الفتح کو ناکام بنانے کے لیے سخت گیر حماس کی حمایت کی تھی۔ یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہوگیا کہ جب مصر میں 2012ء کے صدارتی انتخابات میں اخوان المسلمون فتح یاب ہوئی بالکل اسی طرح جس طرح 2006ء کے انتخابات میں حماس نے الفتح کو شکست دی تھی۔ مغرب نے دونوں ہی انتخابات کے نتائج کو کلعدم قرار دیا جس کی یہ عادت افسانوی ہے کہ وہ ایسی جمہوریتیوں کو تحلیل کردیتا ہے کہ جو اس کے لیے بےچینی کا باعث بنیں۔ 1953ء میں ایران میں محمد مصدق کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اینگلو امریکیوں نے تیل کی سیاست میں پہلی ضرب کے طور پر شاہ ایران کی حکمرانی کو بحال کیا۔ اسرائیل کے اشتعال نے بعد میں تیل کی دولت سے مالا مال سابق فرانسیسی کالونی الجزائر میں مذہبی-قوم پرستوں کی فتح کو ناکام بنا دیا۔ اب اگلی باری سابق سوویت یونین کے سیکولر اتحادیوں کی تھی۔ عراق، لیبیا اور شام کو جنگ میں جھونکا گیا جس نے انہیں کمزور کیا اور یہ کسی حد تک اسرائیل کے حق میں تھا جبکہ ان تمام معاملات میں سعودی عرب نے وسائل و دیگر ذرائع سے مدد کرکے ایک کردار ادا کیا۔ پھر 1981ء میں سعودیوں نے قضیہ فلسطین پر دلکش تجویز کیوں پیش کی تھی؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بڑھتے ہوئے جوش اور غصے کو روکنا چاہتے تھے کہ جب ایرانی انقلاب ان عرب حکومتوں کے لیے خطرہ بن کر سامنے آیا جنہوں نے قضیہ فلسطین کی مکمل حمایت نہیں کی تھی؟ سعودیوں نے 1981ء میں عرب رہنماؤں کی مراکش میں فاس سربراہی کانفرنس میں اپنے منصوبے کی نقاب کشائی کی تھی۔ اس وقت آیت اللہ خمینی کے انقلاب کو مشکل سے دو سال ہی مکمل ہوئے تھے۔ یہ خطرہ اس وقت مزید سنگین ہوگیا تھا کہ جب آیت اللہ خمینی نے تہران میں اپنے گھر میں یاسر عرفات سے ملاقات کی اور مسلمانوں کے لیے مقدس یروشلم کے نام پر قدس فورس کے نام سے ایک ایلیٹ ملٹری گارڈ قائم کیا۔ اطلاعات کے مطابق قطر نے امریکا سے کہا کہ وہ منصوبے کے اعلان کو مؤخر کرے مگر امریکا نے اس درخواست کو نظر انداز کیا۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں کہ اسرائیل نے منصوبے میں ردوبدل کیا اور اس ظالمانہ معاہدے کی مندرجات دیکھ کر شک کی گنجائش باقی بھی نہیں رہی ، تو مسلم دنیا کو خود کو چند اہم سوالات پوچھنے چاہیے ہیں۔ سب سے پہلے تو اسرائیل ایک ایسی ڈیل میں رد و بدل کرنے کا مجاز کیسے ہے جس پر مسلم ممالک پہلے ہی اتفاقِ رائے کرچکے تھے اور امریکا نے اسے ایسا کرنے کیوں دیا؟ دوسری بات یہ کہ فلسطینی جو اسرائیلی جارحیت سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، انہیں مشاورت کے عمل میں شامل کیے بغیر کیسے اس معاہدے کو حتمی شکل دی جاسکتی ہے؟ہ منصوبے حماس کو غیر مسلح کرنے کے بارے میں اور یہ فلسطینی اتھارٹی کو بھی محدود کردے گا، جب تک وہ اسرائیل کے آگے معافی اور ’گناہوں‘ کی بخشش نہ مانگیں۔ اگر دو اہم فلسطینی انتظامی جماعتوں کو اس معاہدے سے الگ کردیا گیا ہے تو غزہ کو کون سنبھالے گا؟ اگر فلسطینی ’ٹیکنوکریٹس‘ جنہیں مقبوضہ پٹی کے انتظامی امور سنبھالنے ہیں، اسرائیل کی وفاداری کا حلف اٹھا لیتے ہیں اور اپنی آزاد ریاست کے تصور سے دستبردار ہوجاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ اس مایوس کُن دستاویز کو پڑھ کر یہی تاثر ملتا ہے۔ اس منصوبے میں دو ریاستی حل کو حقیقت کا روپ دینے کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی جس میں فلسطینی ریاست کا دارالحکومت یروشلم ہوگا۔ اس میں صرف مبہم الفاظ میں ’قابلِ اعتبار راستے‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس منصوبے کے بارے میں کچھ بھی قابلِ اعتبار نہیں ہے جبکہ اس کی کامیابی کے امکانات صفر کے برابر ہیں رپورٹ اشارہ کرتی ہیں کہ حماس بھی اسے ممکنہ طور پر مسترد کردے گا جبکہ الفتح میں بھی اس منصوبے کو لے کر عدم اطمینان پایا جارہا ہے۔ اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرتا ہے تو ٹرمپ نے ’انتہائی افسوسناک انجام‘ کی دھمکی دی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل غزہ کے شہریوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے یہ بتاتا ہے کہاسرائیل کس قدر امن قائم کرنے کا ’عزم‘ رکھتا ہے۔ خود سے پوچھنا چاہیے کہ انہیں اسرائیل اور امریکا پر اندھا بھروسہ کرکے بدلے میں آخر کیا ملا؟