لاہور، 6 دسمبر 2025 (ٹی این ایس): لمز انرجی انسٹیٹیوٹ ( ایل ای آئی )، الائنس فار کلائمٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی (اے سی جے سی ای ) اور پاکستان رینیوبل انرجی کولیشن (پی آر ای سی) کے اشتراک سے دوسرے ایشیا انرجی ٹرانزیشن سمٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں وفاقی وزرا احسن اقبال ، اویس احمد خان لغاری سمیت حکومتی نمائندگان، ملکی و غیر ماہرین، سفارتکار، ماحولیاتی رہنما، ترقیاتی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی اور ایشیا میں ماحول دوست توانائی پر منتقلی کے سیاسی، اقتصادی اور تکنیکی منظرنامے پر تبادلہ خیال کیا۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے افتتاحی خطاب میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جاری اصلاحات پر روشنی ڈالی اور قومی و علاقائی اہداف کے حصول میں مستحکم توانائی کے وسائل کے مؤثر استعمال کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بڑی پیمانے پر قابل تجدید توانائی کے انضمام کے لیے اپنے انفراسٹرکچر کو مضبوط کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک اکیلا ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نہیں نمٹ سکتا، اس کے لیے کثیرالجہتی شراکت داری پر مبنی مالیاتی اور وسیع علاقائی تعاون کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر توانائی (پاور ڈویژن) سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا کہ پاکستان قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ ہماری توانائی کی حکمت عملی کی بنیاد پائیداری پر مبنی ہے اور قابل تجدید توانائی کی مکمل صلاحیت کو استعمال کرنے کے لیے، پاکستان اپنے توانائی کے انفراسٹرکچر کو جدید بنانے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ ایک سمارٹ اور جدید گرڈ سسٹم ہمیں قابل تجدید توانائی کو مؤثر طریقے سے مربوط کرنے کے قابل بنائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قابل تجدید توانائی پر منتقلی کے لیے ہمیں نمایاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، پاکستان بین الاقوامی اداروں، حکومتوں اور نجی شعبے کے ساتھ شراکت کے لیے تیار ہے۔
انرجی سمٹ کے ایک اور سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق نگران وزیر خزانہ، ڈاکٹر شمشاد اختر نے زور دیا کہ ایشیا کو انرجی ٹرانزیشن کے مباحثے میں واضح اور پراعتماد قیادت کرنی چاہیے اور متوازن مالی منصوبہ بندی، تکنیکی تیاری اور سماجی انصاف پر مبنی مربوط فریم ورک کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
جسٹس سید منصور علی شاہ، سابق جج سپریم کورٹ پاکستان، نے انرجی ٹرانزیشن کے قانونی اور ادارہ جاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ماحولیات اور توانائی کی گورننس حقوق پر مبنی، شفاف اور ابھرتے ہوئے خطرات کے مطابق ہونی چاہیے۔ ماحولیات پر سرمایہ کاری کبھی بھی ماحولیاتی چیلنج کے حجم کے برابر نہیں رہی اور اگر کبھی عمل میں آئی بھی تو زیادہ تر قرضوں کی شکل میں دیر سے پہنچی۔سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا کہ ماحولیاتی مالیات بنیادی حق ہے کیونکہ ماحولیاتی موافقت بغیر فنڈز کے ممکن نہیں ہے۔
سمٹ کے دوران بین الاقوامی وفود نے مالیات، قابل تجدید توانائی کے مارکیٹ ریفارمز، کمیونٹی کی مزاحمت اور سرحد پار تعاون کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ایشیا کی ابھرتی ہوئی قیادت میں عالمی دلچسپی کی عکاسی کرتا ہے۔
دیگر سیشنز میں ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹیں، ساؤتھ–ساؤتھ تعاون اور عالمی توانائی کے راستوں میں ایشیا کے جغرافیائی سیاسی اثرات پر بات چیت کی گئی۔ گفتگو میں ایسے مالیاتی میکانزم کی ضرورت پر زور دیا گیا جو ترقی پذیر ممالک کو اضافی قرضوں سے بچائے، مقامی اداروں کو مضبوط بنائے اور عوامی مرکزیت والی منتقلی کی حکمت عملی کی حمایت کرے۔
افتتاحی دن کے اختتام پر، ڈاکٹر طارق جادون، پرووسٹ لمز نے یونیورسٹی کی تحقیق پر مبنی، شواہد کی بنیاد پر توانائی کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ڈاکٹر فیاض احمد چوہدری، چیئرمین نیشنل گرڈ کمپنی اور سینئر ایڈوائزر LEI نے کہا کہ سمٹ کی گفتگو عملی اور مالی طور پر قابل عمل راستے فراہم کرے گی تاکہ تمام ممالک ترقیاتی ایجنڈوں کو ماحولیاتی اور توانائی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کر سکیں۔ سمٹ کل اعلیٰ سطح فورمز کے ساتھ جاری رہے گا جن میں مالیاتی منظرنامے، قابل تجدید توانائی کے استعمال اور ایشیا کی ابھرتی توانائی کی سفارت کاری پر توجہ دی جائے گی۔













