ساس بہو کی دوستی

 
0
10442

تحریر:عاصمہ فضیلت

دنیا کی بڑی سی بڑ ی جنگیں ختم ہو گئی ، یہاں تک کہ علمی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سماج میں کجھ جنگیں کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں۔ ایسی ہی لڑائیوں میں سے ایک لڑائی ساس بہو کی ہے۔ جس کی وجہ سے تقریبا ہر گھر میدان جنگ کا منظر پیش کرتا ہے ۔ یہ لڑائی دو ملکوں ، دو قبیلوں ، یا دو مذہبوں کے درمیان نہیں ، بلکہ یہ لڑائی دو افراد، دو ہم جنس، دو خوبصورت رشتوں کے درمیان ہے۔یہ جنگ ان کی ہے جن کی ذمہ داریاں ایک ہیں، احساسات ایک ہیں،بچپن سے بڑھاپے تک کے سفر کے تمام مراحل ایک جیسے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اختلافات، اعتراضات یا جنگ نہیں بلکہ دوستی ، چاہت، پیار محبت ، اور لگن کی فضا ہونی چاہے تھی۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے سماج میں اس کے برعکس ہے۔ ساس بہو کی لڑائی صدیوں سے بدستور اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔
کتنی عجیب اور حیران کن بات ہے کہ وہ ماں جو بڑے لاڈ پیار سے اپنے بیٹے کو پالتی ہے ۔ جب بیٹا جوان ہو جاتا ہے تو اس کی شادی کے خواب دیکھنے لگتی ہے، انہیں خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئیے گھر گھر کے چکر لگا کر اپنے بیٹے کی دلہن تلاش کرتی ہے، یہاں تک کہ بڑے پیار اور چاہ سے بیٹے کی شادی رچاتی ہے۔ بیٹے کا گھر بسنے اور خوابوں کو پورا ہوتے دیکھ کر خوشی سے بھولے نہیں سماتی ۔مگر جب غریب دلہن اپنا میکا چھوڑ کر اپنے ماں باپ ،بہن بھائی اور رشتہ داروں سے جدا ہو کر اپنے سسرال میں قدم رکھتی ہے ، تو شادی کے شروع کے دنوں میں ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات ، اعتراضات اور روک ٹوک شروع ہو جاتی ہے جو آہستہ آہستہ نفرت اور دشمنی کی شگل اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس دشمنی کی آگ میں سب سے ذیادہ نقصان بے چارے شوہر کو ہوتا ہے۔ جو ماں اور بیوی کی لڑائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کچل اور پس رہا ہوتا ہے۔
غریب شوہر ایک طرف ماں کے احسانوں تلے دبا ہوا اور دوسری طرف بیوی کی محبت میں چکڑا ہوا ماں اور بیوی کی لڑائی کا منظر دیکھ دیکھ کر کوفت کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ اس کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑتی ہے ، اگر کسی ایک کی بھی حمایت میں کوئی چھوٹا سا جملہ کہہ دے، تو دوسرا آگ بگولہ ہو جاتا ہے۔ماں کی حمایت کرے تو بیوی کے رونے دھونے، طعنوں اور میکا چلی جانے کی دھمکیوں سے اس کا دماغ خراب ہونے لگتا ہے۔اگر غلطی سے بیوی کی پاسداری میں ایک لفظ کہہ دے تو ماں اپنی چیخ و پکار اور کوسنوں سے سارا گھر سر پر اٹھا لیتی ہے ۔ ساری براداری میں جو اس کی عزت کا جلوس نکلتا ہے وہ الگ ہے ۔ براداری میں عورت کا مرید ،، ..زن پرست،، ..بیوی کا غلمنٹا،، جیسے ناموں سے پکارہ جاتا ہے ۔ ایسے گرما گرم اور دل خراش طعنے سنتا ہے کہ رنج و غم سے اس کے سینے میں دل پھٹنے لگتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ساس بہو کی لڑائی میں ، ساس بہو اور شوہر تینوں کا ہی کچھ نہ کچھ قصور ضرور ہوتا ہے۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آیاہے، سب سے ذیادہ قصوار ساس کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شائد ان کا عمر میں بڑا اور تجربہ کار ہونا ہے ۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لڑائی میں سب سے ذیادہ ہاتھ ساس کا ہوتا ہے۔ جیسے صبع دیر سے اٹھنے پر بہو کو باتیں سننا، کھانے میں نقص نکالنا وغیرہ ۔ لیکن سوچنے کی بات ہے ایسا کیوں ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے جو لڑکی حور پری لگتی تھی وہ شادی کے بعد چڑیل کیوں لگنے لگتی ہے۔ شادی سے پہلے ساس جس کی تعریف میں زمیں آسمان ایک کردیتی تھی۔ وہ شادی کے فورا بعد دل سے کیوں اترنے لگتی ہے۔ اس کے خلاف لفظوں کے تیر کیوں چلائے جاتے ہیں۔شائد اس لئے کی ساس بننے سے پہلے وہ عورت صرف ایک ماں اور بیوی ہوتی ہے، گھر کی دنیا اس کے گرد گھومتی ہے، ہر معاملے میں اس کی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مشورے کے بغیر کوئی کام سر انجام نہیں ہوتا، تو اسے یہ خطرہ ہوتا ہے کہیں بہو اس کی جگہ نہ لے۔ آہستہ آہستہ یہ ہی ڈر ایک دن جذبہ حسد میں تبدیل ہو جاتا ہے ، اور ساس بہو کو اپنی حریف اور مدمقابل سمجھنے لگتی ہے۔
دوسری طرف بہو جب نئے گھر میں آتی ہے تو اس گھر کے متعلق اس نے بہت سے خواب دیکھے ہوتے ہیں۔ جنہیں پورا کرنے کا موقع شادی کے بعد ملتا ہے۔ چنانچہ وہ چاہتی ہے کہ اسے گھر کا مالک بنا دیا جائے۔ گھر کی تزئین و آرائش سے لے کر دیگر امور وہ اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق چلائے۔ اس سلسلے میں جب اسے جائز نصحیت یا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ اسے اپنی توہین سمجھتی ہے ۔ پھر اس کے دل میں ساس کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ساس بہو کے بارے میں کہا جاتا ہے جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی بلکل اسی طرح ساس بہو ایک گھر میں نہیں رہ سکتی ہیں۔کیونکہ اگر یہ دونوں ایک ساتھ رہیں تو آئے دن ان کے درمیان نوک چھونک ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شادیاں خواتین کی وجہ سے ناکام ہوتی ہیں ۔ کیونکہ عورت ہی ہے جو گھر بناتی بھی ہے اور بگاڑتی بھی ہے۔اب چاہے یہ عورت ساس کے روپ میں ہو یا بہو کے روپ میں ہو۔ان تمام حقائق کے بعد ہم کہ سکتے ہیں کہ ساس بہو کے رشتے کی بنیاد نفرت وعداوت ہے۔
کیا ان میں دوستی یا محبت کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا؟ ساس بہو ایک ساتھ نہیں رہ سکتی یہ کوئی حتمی رائے تو نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یہ دونوں تھوڑی سی کوشش کریں تو ساس بہو کے رشتے میں نفرت وعداوت ختم کر کے اسکی جگہ دوستی اور محبت کر سکتی ہیں۔ جو ان کی گھریلوں زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ اور ان کا گھر ایک آئیڈیل گھر بن جائے گا لوگ ان پر رشک کریں گے۔ اس کے لئے انہیں کوئی خاص محنت کی بھی صروت نہیں ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ جیسے کہ ساس کو چاہے بہو کو اپنی بیٹی سمجھے، جس طرح وہ اپنی بیٹی کو تکلیف پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتی بلکل اسی طرح بہو کو بھی پریشان نہ کرے۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو درگزر سے کام لے، ڈانٹنے کے بجائے پیار سے سمجھائے اور جو کام قابل ستائش ہوں اس کی تعریف کرئے تاکہ اس کی خوصلہ افزائی ہو۔ گھریلو معاملات میں بہو سے بھی مشورہ لیا جائے تاکہ وہ خود کو اس گھر کا فرد سمجھے اور ان معاملات
میں دلچبی لے ۔ ساس کو گھر کی باتیں محلے والوں اور رشتے داروں کو نہیں بتانی چاہیں ۔ بہو کو بھی کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہے، اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد پر بھی یکساں توجہ دے۔ سارے گھر والوں کی خواہشات و ضروریات کا خیال رکھے۔اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اسے فورا دور کرے۔ لوگوں کی باتوں میں آنے کے بجائے خود حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرے ،گھر کی باتیں میکے میں نہ بتائے، ایسا کرنے سے بات ختم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔ اور دونوں گھرانوں میں رنجشیں جنم لیتی ہیں۔ اگر ساس بہو ان باتوں پر دھیان دیں تو ان کا رشتہ دوستی اور محبت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ایک دوسرے کی خامیوں کو تلاش کرنے کے بجائے خوبیوں پر نظر رکھیں کیونکہ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔کہیں اچھائی کا زیادہ ہوتا ہے تو کہیں برائی کا۔تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ خوشگوار تعلقات کے لئے ضروری ہے کہ فرد کی خوبیوں پر نظر رکھی جائے ورنہ برائیوں کو زیادہ اہمیت دینے سے رشتوں میں داراڑ پڑ جاتی ہے۔