تمام فیصلے آئین و قانون اور ضمیر کے مطابق کرتے ہیں ۔ ہم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ۔چیف جسٹس ثاقب نثار

 
0
379

اسلام آباد دسمبر 16(ٹی این ایس): چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا کہ ہم آئین و قانون اور ضمیر کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ۔ ہم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ لیکن ججز کو گالیاں دینا اور ان سے بد تمیزی کرنا کہاں کا طریقہ ہے؟ لیڈی ججز کے چیمبر میں گھس کر گالیاں نکالنا کہاں کا انصاف ہے؟ موجودہ دور حالات میں ججز اور وکلا کی بقا مشکل ہو گئی ہے۔ایک جج کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ وکلا کی جانب سے موکلوں سے ڈھائی ڈھائی کروڑ فیس وصول کی جا رہی ہے۔ 15 ہزار روپے کورٹ فیس سے زیادہ وکلا 25 لاکھ روپے فیس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کچھ وکلا ڈھائی ڈھائی کروڑ روپے فیس کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ شاید ہم وہ معیاری انصاف نہیں دے پا رہے جو لوگوں کا حق ہے۔ کیس بنتا نہیں وکیل کیس دائر کرنے کا کہتے ہیں۔کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے۔ کیس بنتا بھی نہیں ہے اور وکلا فیس لینے کے لیے درخواست ڈال دیتے ہیں۔ وکلا سائلین سے بہت زیادہ فیسیں وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آج سے ہی کلائنٹس کے لیے فیس آدھی کرنے کا اعلان کر دیں۔ کیونکہ جمہوریت نہیں تو آئین نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا کیا مقام ہے میں نے اپنے فیصلے میں بتا دیا ہے۔ہم اپنے آئین کا تحفظ کریں گے۔ وکلا کو بھی چاہئیے کہ وہ دیانتداری سے عوام کی خدمت کریں۔وکلا کیسز دیکھ لیاکریں صرف پیسے پر توجہ نہ دیں۔صرف ایک سال ٹیسٹ دیں پھر اس کا انعام بھی دیکھ لیں۔ کیونکہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔میں اعتراف کرتا ہوں انصاف کی فراہمی میں تاخیر خرابی ہے ۔ عوام کو معیاری انصاف نہیں دے پا رہے ، دونوں اطراف سے ہونے والی کوتاہیوں کا ذمہ دار ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچے کو شرمندگی کے ساتھ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ ناقدین کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے فیصلہ پڑھا تک نہیں ہوتا وہ بھی تبصرہ شروع کر دیتے ہیں۔

حلفاً کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کا فیصلہ اسی دن آنا ہے۔ ہم سے کسی نے نہیں کہا کہ فٓایسے فیصلہ کریں۔ ہم آزادی کے ساتھ کام کر رہےہیں اور ہر جج کو رائے دینے کا حق ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ میں حلفاً کہتا ہوں کہ سپریم کورٹ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ قانون میں اگر کہیں غلطی ہو تو نشاندہی کرنا جج کی ذمہ داری ہے۔ جج پوری ایمانداری اور دیانتداری سے فیصلہ کرتے ہیں۔ گاؤں میں بابا رحمت جس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اس کو گالیاں نہیں نکالتا۔آپ کے خلاف فیصلہ ہو تو یہ گالیاں نہ نکالیں کہ بابا کسی پلان کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ بابا کسی پلان کا حصہ نہیں بنا ہے نہ بنے گا۔جوڈیشری آپ کا بابا ہے اس کی ساکھ اور دیانت پر شک نہ کیجئیے۔ یہ پلان اور یہ دباؤ کہاں سے آگئے؟ یہ بھول جائیں کہ عدلیہ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ ہے۔ ہم فیصلے آئین و قانون اور ضمیر کے مطابق کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج تک کوئی ایسا پید انہیں ہوا جو ہم پر دباؤ ڈالے۔