کراچی، ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ و چائنا کٹنگ، کنارے ملیر اور سپر ہائی وے پر کئے جانے والے لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضوں کی تفصیلات غائب

 
0
446

کراچی دسمبر 17(ٹی این ایس)کراچی کے شہری اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضوں اور چائنا کٹنگ کی حوالے سے رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے، رپورٹ میں سیاسی ،لسانی جماعتوں اور سندھ کی حکمران جماعت سمیت 67اہم شخصیات کے نام شامل ہیں جبکہ کٹی پہاڑی ،شیرین جناح کالونی اور کیماڑی میں سمندر کے اندر قبضوں، ندی نالوں کے کنارے ملیر اور سپر ہائی وے پر کئے جانےوالے لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضوں کی تفصیلات غائب کردی گئیں ہیں اور ہزاروں ایکڑ زمین کو فہرست میں شامل نہیں کیا گیا اس طرح اعلی عدالت کو بھی ادھوری رپورٹ دیکر گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قبضوں میں ملوث سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کا نام فہرستوں سے نکال دیا گیاہے ۔گزشتہ 40سالوں کے دوران کراچی میں کئے جانے والے قبضوں میں ملوث ایک ہزار سے زائد لینڈ گریبرذ کے نام بھی مذکورہ فہرستوں میں شامل نہیں کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے بقول لسانی بنیادوں پر تیار کی گئی ایسی رپورٹس سے شہر میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے ، واضح رہے کہ اسی فہرست کو جواز بناکر کراچی میں غیر قانونی قبضوں اور چائنا کٹنگ کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے مگرسپریم کورٹ کے واضح احکامات کو 17روز گزر جانے کے باوجود پولیس کی جانب سے فہرست میں موجود کسی لینڈ گریبرز کو گرفتار نہیں کیا گیا اور اس فہرست کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ قبضوں اور چائنا کٹنگ میں ملوث ملزمان ایم کیو ایم چھوڑکر بڑی تعداد میں پی ایس پی میں شامل ہوچکے ہیں۔

ایک اعلی پولیس افسر کے مطابق وہ فہرست میں موجود ملزمان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے ملزمان کے اثر ورسوخ سے خوف کا عالم یہ ہے کہ وہ پولیس افسر اپنا نام بھی ظاہر کرنے پر تیا ر نہیں ہیں اسی طرح فہرست میں شامل کئے گئے ایک سو سے زائد رفاعی پلاٹوں کی فہرست کٹنگ کے بعد جن کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہےکو خالی کرانے کیلئے بھی کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں کی گئی کیونکہ ان پلاٹوں کے کم از کم تین حصوں پر رہائشی آبادیاں بسادی گئی ہیں جن میں لاکھوں لوگ آباد ہیں تاہم ایس بی سی اے کے ڈی جی آغا مقصود کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سندھ حکومت سے واضح رہنمائی لی جائے گی جبکہ کے ڈی اے کے ڈی جی سمیع الدین صدیقی کے مطابق کمرشل اداروں کے خلاف بھرپورکارروائی کی جارہی ہے اور ان خالی کرائے گئے پلاٹوں پر دوبارہ قبضوں سے بچانے کیلئے بھی پالیسی بنائی جارہی ہے تاہم سب سے بڑے شہری ادارے کے ایم سی کے پاس اس سلسلے میں کمزور دلائل ہیں اس کے ترجمان علی حسن ساجد کا کہنا ہے کہ ہم تین مرحلوں میں آپریشن کرینگےپہلا مرحلہ ایسے پلاٹ خالی کرانا ہے جو اسکول ، مدارس،مساجد ،کالجز ، کھیلوں کے میدان یا پارکس کیلئے مختص تھے جبکہ دوسرے مرحلے میں ندی نالوں کے کناروں پر کئے گئے قبضوں اور جعلی الاٹمنٹوں کے ذریعے بٹھائے گئے رہائشیوں سے پلاٹس خالی کرائے جائینگے جبکہ تیسرے مرحلے میں کٹی پہاڑی اور شیریں جناح کالونی جیسی غیر قانونی آبادیوں سے زمین خالی کرائی جائیگی کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا آپریشن کسی مخصوص کمیونٹی یا علاقے کیلئے نہیں پوری کراچی کیلئے ہے تاہم انہوں نے کہا کہ کراچی میں کے ایم سی کا صرف 33فیصد حصہ ہے باقی زمین کے ڈی اے،ایم ڈی اے،ایل ڈی اے، کنٹونمنٹ بورڈ یا دیگر اداروں کے پاس ہے،سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی فہرست میں شامل لینڈ گریبرز کے نام مندرجہ ذیل ہیں چنو بھائی ، الیاس ساگر، اکبر ٹوپی ، وسیم آفتاب ، محسن وکی ، اصغر قریشی ، جبار منگی ، رئیس ماما،عامر معین پیر زادہ ، خالد محمود، ایم اے عقیل ، شکور بروکر، عامر ، کاشف، عقیل ، خالد عمر ، شارق الیاس، کاشف اینڈ عامر ، ظفر حسین زیدی ، فیروز بنگالی، شعیب صدیقی ، واسع جلیل، عاطف ، عمران، عرفان ملک ، نعمان خان، عامر بھائی ، ڈاکٹر ادیب ، ڈاکٹر گل حسن زیدی، حماد صدیقی ، کمال آئی ٹی برانچ ، قیوم ، جرار، صدرو، امین بھائی ، ڈاکٹر عدیل ، اقبال لاڈلہ ، غفار ، مجیب بنگالی، فیصل لمبا ، عارفین ، الطاف بخاری، زاہد ، گڈو سورتی ، ارشد مرغی ، اکرام ٹینشن ،غوث اللہ بیگ،…