شہر میں پانی کی قلت اتنی نہیں ہے جیسا کہ پروپیگنڈا کیا جاتاہے مگر اصل مسئلہ 70 سے 80سال پرانا تقسیم کا نیٹ ورک ہے، وزیراعلیٰ سندھ

 
0
325

کراچی دسمبر 19 (ٹی این ایس) وزیر اعلی سندھ سیدمراد علی شاہ نے کہا ہے کہ شہر میں پانی کی قلت اتنی نہیں ہے جیسا کہ پروپیگنڈا کیا جاتاہے مگر اصل مسئلہ 70 سے 80سال پرانا تقسیم کا نیٹ ورک ہے۔انہوں نے یہ بات وزیر اعلی ہاؤس میں صوبے میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے منعقدہ ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔اجلاس میں صوبائی وزرا منظور وسان، ڈاکٹر سکندر میندرو، جام خان شورو، فیاض بٹ، چیف سیکریٹری رضوان میمن، ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو، چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم، وزیر اعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری سہیل راجپوت، ورلڈ بینک کے نمائندوں،صحت، انڈسٹریز، پی ایچ ای، انرجی کے محکموں کے سیکریٹریز مختلف محکموں کے چیف انجینئرز، ڈویژنل کمشنر ز و دیگر نے شرکت کی۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ شہر میں پانی کی اتنی بھی قلت نہیں ہے جیسا کہ واٹر بورڈ پروپیگنڈاکررہاہے۔ واٹر بورڈ کی بیوروکریسی اور لوکل گورنمنٹ گذشتہ کئی سالوں سے سیاستدانوں کو مس گائیڈ کررہی ہے اور سیاستدان ان کے غلط اعدادو شمار پر یقین کرلیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک پروفیشنل انجینئر ہوں اور آپ مجھے مس گائیڈ نہیں کرسکتے۔

انہوں نے واٹر بورڈ سے کہا کہ اصل مسئلہ غیر موثر تقسیم کے نظام کا ہیجوکہ واٹر بورڈ پانی کی قلت کی آڑ میں چھپاتی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ زنگ آلود، خراب اور پرانے تقسیم کا نیٹ ورک ہے۔ اس پر صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ شہر میں 12سو کلو میٹرسے طویل پانی کی فراہمی کا نیٹ ورک ہے جس کی تبدیلی پر تقریبا 200بلین روپے لاگت آئے گی۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ نئی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 16 ملین ہے۔ واٹر بورڈ کے معیار کے مطابق پانی کی ضرورت 50جی فی آدمی روزانہ ہے۔اگر 16ملین کی آبادی کو 50 جی /کیپیٹا /دن کے حساب سے ضرب دیں تو شہر کی پانی کی ضرورت 800ایم جی ڈی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت کراچی کو 650ایم جی ڈی پانی مل رہا ہے، جس میں 550ایم جی ڈی کینجھر سے اور 100ایم جی ڈی حب سے مل رہاہے۔ 2018 کے آخر تک کے فور سے 260ایم جی ڈی پلس 65ایم جی ڈی دیگر چھوٹی اسکیموں سے فراہم ہوگا، اس طرح یہ 325 ایم جی ڈی ہوجائے گا۔اگر موجودہ دستیاب 650 ایم جی ڈی اور کے فور اور دیگر چھوٹی اسکیموں کے 325 ایم جی ڈی کو ملاتے ہیں تو اس طرح سے شہر میں دستیاب پانی 975 ایم جی ڈی ہوجائے گاجبکہ ضرورت 800ایم جی ڈی کی ہے اور اس طرح یہ پانی اگلے تین چار سالوں تک کے لیے کافی ہوگا۔

شہر میں پانی کی تقسیم کے نظام سے متعلق باتیں کرتے ہوئے وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ یہ 80تا100 سال پرانا نیٹ ورک ہے اور یہ اپنی لوجیکل عمر مکمل کرچکاہے اور اب نہ صرف یہ کہ پرانی لائنوں کی وجہ سے پانی آلودہ ہورہا ہے بلکہ رساؤ کے باعث ضائع بھی ہورہا ہے۔انہوں نے صوبائی وزیر بلدیات کو ہدایت کی کہ وہ پرانے تقسیم کے نظام کی تبدیلی کے لیے ایک پلان تیار کریں۔انہوں نے کہا کہ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ پانی کی فراہمی کے لیے بچھائی گئی لائنوں کا علاقے کے حساب سے ڈیٹا جمع کریں اور اس کے بعد پہلے مرحلے میں سب سے پرانی لائنوں کی تبدیلی شروع کریں اور اس کے بعد مرحلہ وار تبدیل کرتے جائیں۔انہوں نے کہا کہ پرانے علاقے جہاں پر پانی کی تقسیم کی پائپ لائنیں 60 تا70 سال قبل بچھائی گئی تھیں اور بعض کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ 100 سال پرانی ہیں

انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے پر جو بھی لاگت آئے گی اس کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں۔ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ حیسکو واٹر بورڈ سے کینجھر جھیل پر کے فور پروجیکٹ کے پمپنگ اسٹیشن کو 50 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کے لیے 6بلین روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے، اس پر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاکہ واٹر بورڈ 50 میگا واٹ پاور اور ٹرانسمیشن لائن کے لیے 6 بلین روپے ادا کرنے جارہاہے تو پھر وہ اپنا ایل این جی پر چلنے والا یا50 میگاواٹ کا ونڈ پاور پلانٹ کیوں نہیں لگا لیتا۔کے فور کے لیے فنڈز دستیاب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں مشورہ دوں گا کہ آپ اپنا ذاتی 50 میگا واٹ کا پاور پلانٹ لگا لیں اور واٹر بورڈ کے لیے پاور پلانٹ کی تعمیر اور ٹرانسمیشن لائن کے لیے نجی پارٹی اور حکومت مل کر شراکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ ایک سال کے اندر نصب ہوجائے گا۔وزیر اعلی سندھ نے یہ ٹاسک صوبائی سیکریٹری انرجی آغا واصف کو دیتے ہوئے کہا کہ وہ صوبائی وزیر بلدیات اور ایم ڈی واٹر بورڈ کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور پلان ترتیب دیں اور 50 میگا واٹ پاور پلانٹ کے لیے سروے شروع کریں