اگلے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے، نواز شریف کا اعلان

 
0
284

لاہور،دسمبر 22 (ٹی این ایس): سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ اگلے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے اور ان کی انتخابی مہم اور تحریک ساتھ ساتھ چلے گی۔

رائیونڈ جاتی امرا میں منعقدہ ایک اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ تحریک عدل، سویلین بالادستی اور مضبوط جمہوریت آئندہ انتخابات میں ہمارے بنیادی اصول اور نعرے ہوں گے، امید ہے کہ قوم ان کو پذیرائی بخشے گی۔

اجلا س میں سینیٹر پرویز رشید، عرفان صدیقی، دانیال عزیز اور ابصار عالم بھی موجود تھے۔

نواز شریف نے کہا کہ عدل و انصاف جمہوری معاشروں کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، جب انصاف کے پیمانے پسند و ناپسند پر الگ الگ ہو جائیں تو پھر معاشروں میں استحکام نہیں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ‘مجھے محض اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دے کر گھر بھجوا دیا گیا جبکہ عمران خان کے حوالے سے بہت کچھ ہونے کے باوجود انہیں اہل قرار دیدیا گیا، میں دونوں مقدمات کے فیصلوں کے تضادات سے قوم کو آگاہ کروں گا’۔

نواز شریف نے کہا کہ 70سالہ خرابیاں دور کرنے کے لیے کسی کو تو کھڑا ہونا پڑے گا، ‘میں کھڑا ہوں اور ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرنے کو تیار ہوں، یقین کریں ثابت قدم رہوں گا، ہمارا عوامی اور سیاسی مقدمہ بہت مضبوط ہے اور عوام کھرے کھوٹے اور سچ جھوٹ کی پہچان اور ادراک رکھتے ہیں’۔

نواز شریف نے کہا کہ ‘آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہوں گے، ان کے اور میرے بیانیہ میں کوئی فرق نہ ہو گا اور مستقبل میں پالیسی ایک ہی ہوگی’۔

انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘شہباز شریف تیز رفتار، محنتی اور بے حد اچھے منتظم ہیں، 2013ء کے انتخابات میں جو کامیابی حاصل ہوئی اس میں ان کا بھی بڑا کردار تھا۔ انہوں نے جماعت کے ساتھ ہر مشکل وقت میں کمٹمنٹ نبھائی’۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں نے جس طرح ساڑھے چار سال گزارے وہ مجھے ہی معلوم ہے مگر اس کے باوجود ہم نے بجلی کے کارخانے لگائے، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا، کراچی میں امن قائم کیا، پہلے کوئی کیوں نہ کر سکا؟’

ان کا کہنا تھا، ‘ہم نے موٹر ویز کا جال بچھایا اور آئندہ سال لاہور سے ملتان تک موٹر وے بھی بن جائے گی، ہم نے اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے بہت کچھ کیا، جس کے نتائج آج قوم کے سامنے آ رہے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ماضی کے فیصلوں کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں، ہماری سیاست اور معیشت نے بہت نقصان اٹھایا، اب پھر کچھ مذہبی بنیاد پر بننے والے گروپوں کو میدان میں اتار کر قومی جماعتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے نتائج اور مضمرات ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی’۔

نواز شریف نے کہا کہ ‘خدارا ذمہ داری کا مظاہرہ ہونا چاہیے، ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جو ہماری نسلیں بھگتیں۔پاکستان ایک ایٹمی پاور ہے، لہذا ہمارا طرز عمل ایک ذمہ دار جوہری قوت کی طرح کا ہونا چاہیے کیونکہ بہت سے ممالک پہلے ہی جوہری قوت کے پیچھے لگے ہوئے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت اور سویلین بالادستی سے مشروط ہے اور اس پر کسی کو اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے نظام عدل پر تحریک کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘ہم اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے’۔

نواز شریف نے کہا، ‘ہم نے آزاد عدلیہ کی تحریک اس لیے چلائی تھی کہ پاکستان میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا اور قانون کا نفاذ طاقت کے تمام مراکز پر یکساں نافذ ہو گا لیکن بدقسمتی سے یہاں انصاف کے عمل کو یکطرفہ طور پر عوام کی مقبول لیڈر شپ کے خلاف چلایا گیا اور دوہرے معیارات قائم کرکے ایسے فیصلے دیئے گئے جن سے ملک میں استحکام آنے کے بجائے سیاسی اور معاشرتی نظام درہم برہم ہوا۔ دہشت گردپھر سر اٹھا رہے ہیں، اسٹاک مارکیٹ دس بارہ ہزار پوائنٹ نیچے آ گئی، یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے’۔

سابق وزیراعظم نے سوال کیا کہ ‘یہ کیسا انصاف کا عمل ہے کہ منصفوں کے فیصلے بولنے کے بجائے وہ خود بول رہے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ یہ عوام کو پتہ لگنا چاہئے’۔

ان کا کہنا تھا، ‘معاشی حوالے سے ہم کہاں کھڑے تھے، آج ہم کہاں پہنچ گئے۔ سی پیک کی روح اور ہمارے معاشی وژن کا سیاسی عدم استحکام کے ذریعے بیڑا غرق کیا گیا ہے’۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ منتخب لیڈر شپ کو خوامخواہ پھنسا کر اقتدار سے علیحدہ کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ‘مجھے تو میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ مجھے اپنے بیٹے کی فرم سے تنخواہ وصول نہ کرنے کے اقدام میں نااہل قرار دیا گیا ہے، اس پر تو کوئی بحث ہی نہیں ہوئی نہ مجھ سے وضاحت مانگی گئی۔ ایک طرف ایک کیس میں الیکشن کمیشن کو پابند کر دیا گیا کہ پانچ سال سے پیچھے کا ان سے حساب نہیں لیا جائے گا جبکہ میرے کیس میں تو قیام پاکستان سے پہلے کے تمام کھاتے بھی کھنگال لیے گئے۔ ایسا کیوں ہے میں قوم کو بتاؤں گا۔’

انہوں نے جماعت کے اندر بعض رہنماؤں کے اختلافی بیانات کے بارے میں کہا کہ ‘ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے، کیا اس مشکل وقت میں اختلافی بیانات ضروری اور مناسب ہیں؟ مشکل وقت میں ساتھ کھڑا ہوا جاتا ہے نہ کہ اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے، جو ایسا کر رہے ہیں جماعت میں کوئی ان کے ساتھ نہیں اور نہ ہی ان کے طرز عمل کو اچھا سمجھا جا رہا ہے’۔

وفاقی وزیر دانیال عزیز نے اجلاس میں نواز شریف اور عمران خان کے مقدمات کا تقابلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ عمران خان کے مقدمات میں بڑے تضادات کے باوجود انہیں اہل قرار دے دیا گیا جس سے اور بڑے سوالات کھڑے ہو گئے، ہم یہ تضادات سامنے لائیں گے۔