مولانا فضل الرحمٰن متحدہ مجلس عمل کے صدر منتخب

 
0
7242

لاہور،جنوری19 (ٹی این ایس): ملک کی 5 بڑی مذہبی جماعتوں کا اتحاد ’’ متحدہ مجلس عمل ‘‘ عہدے داروں کے انتخاب کے بغیر ہی اختتام پذیر ہو گیا ، مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن سے ایم ایم اے سمیت اس اتحاد میں شامل 4 بڑی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخی کو بنیاد بناتے ہوئے ’’آخری  لمحات ‘‘ تک شریک اقتدار رہنے کا جواز بنایا  تو سینیٹر سراج الحق سمیت دیگر جماعتوں نے بھی ان کی تائید کر دی  جس کے بعد متحدہ مجلس عمل کے عہدے داران کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تاہم ایم ایم اے کی صدارت کے لئے مولانا فضل الرحمن کے نام پر اتفاق ہو گیا ہے جس کا با ضابطہ اعلان جمعیت علمائے اسلام (ف) کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا ۔

تفصیلات کے مطابق متحدہ مجلس عمل کا سربراہی اجلاس مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے مرکز راوی روڈ میں سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی صدارت میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں   مولانا فضل الرحمن، سینیٹر سراج الحق،  پیر اعجاز ہاشمی،علامہ سید ساجد علی نقوی، شاہ اویس نورانی، لیاقت بلوچ، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی  ڈاکٹر حافظ عبدالکریم، وفاقی وزیر  اکرم خاں درانی، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری،  فرید احمد  پراچہ، مولانا محمد امجد خاں ، رانا شفیق خاں پسروری سمیت دیگر شریک ہوئے ۔ اندرونی کہانی کے مطابق ایم ایم اے کے سربراہی اجلاس جس میں متحدہ  مجلس عمل کے عہدے داران کا اعلان متوقع تھا ،لیکن جب اجلاس شروع ہوا تو ایم ایم اے کی سربراہی کے لئے مولانا فضل الرحمن کے نام پر اتفاق رائے ہو گیا لیکن سیکرٹری جنرل کے لئے جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور جے یو پی کے  شاہ اویس نورانی کے نام پر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ، جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر موقع کی مناسبت سے اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے تجویز پیش کی کہ چند روز قبل الیکشن کمیشن متحدہ مجلس عمل سمیت اس اتحاد میں شامل 4 بڑی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر چکی ہے جبکہ اب جاری اجلاس میں عہدے داران کے ناموں پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو رہا ،لہذا بہتر تو یہ ہے کہ ہم  جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اس اجلاس میں ایم ایم اے کے عہدے داران کا اعلان نہ کریں اور ہر جماعت سے تین ، تین ارکان لے کر سپریم کونسل بنا لی جائے جو اتفاق رائے سے سیکرٹری جنرل اور دیگر عہدوں پر ناموں کا اعلان کریں ،جس پر جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق ، جمعیت علمائے پاکستان کے پیر اعجاز ہاشمی ،مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سینیٹر ساجد میر نے ان کی تائید کر دی ۔اس فیصلے کے  بعد جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے لئے ’’حکومتی مزے ‘‘ اور آخری لمحے تک شریک اقتدار رہنے کا جواز پیدا ہو گیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن نے اتحاد میں شامل جماعتوں کو  ’’ مفت مشورہ‘‘ بھی دے دیا کہ ابھی ہمیں حکومت کے خلاف سخت زبان سے گریز  اور غیر ضروری تنقید سے پرہیز کرنا چاہئے ۔

واضح رہے کہ ایم ایم اے کے کراچی میں ہونے والے گذشتہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور عہدے داران کے انتخاب کے ساتھ ہی اس اتحاد میں شامل جماعتیں وفاقی و صوبائی حکومتی عہدوں سے الگ ہو جائیں گی ۔

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مسلم لیگ ن کی اتحادی ہے اور اس کے دو وفاقی وزیر ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ،اور چیئرمین کشمیر کمیٹی کا عہدہ بھی حکمران جماعت سے قربت کا نتیجہ ہے جبکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبد الکریم وفاقی وزیر جبکہ پروفیسر ساجد میر ن لیگ کے کوٹے پر سینیٹر ہیں ۔دوسری طرف جماعت اسلامی خیبر پختون خواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی مکمل اتحادی ہے اور اس کے پاس صوبے کی تین اہم وزارتیں بھی موجود ہیں ۔متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے ساتھ ہی ان تینوں جماعتوں کو حکومتی عہدے چھوڑنا ہوں گے تاہم ایم ایم اے کے مرکزی عہدوں پر ناموں کے چناؤ میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک نے ان تینوں جماعتوں کو آخری وقت تک شریک اقتدار رہنے کا جواز فراہم کر دیا ہے ۔

اجلاس کے بعد سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جس میں عہدے داران کے انتخاب کے حوالے سے ایک لفظ بھی شامل نہیں تھا ۔سینیٹر پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دینی وسیاسی جماعتوں کا  یہ سربراہی اجلاس اپنے اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان کی آزادی،  سلامتی،  استحکام اور اسلامی تشخص کے لیے مشترکہ جد وجہد کریں گے۔ ہمارا اصل ہدف ملک میں اسلامی جمہوری بنیادوں پر نظام مصطفی ﷺ  کا قیام،  اسلامی اقدار وقوانین بالخصوص عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ کے قانون کا تحفظ کروانا ہے ۔مندرجہ ذیل دینی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کی تشکیل کا اعلان کرتی ہیں جو اپنے فیصلے اتفاق رائے سے کریں گی اور دستور کے مطابق اپنے اجلاس منعقد کر کے دینی وسیاسی مسائل پر باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جائیں گے۔ نیز ملک میں مسلمہ مسالک کے ما بین باہمی احترام رواداری کی بنیاد پر تمام دینی وسیاسی قوتوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا کر اسلامی نظام زندگی کے قیام کی بھر پور جد وجہد اور لادین عناصر کی یلغار کا مقابلہ کیا جائے گا۔

اعلامیئے میں کہا گیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل ہر قسم کی کرپشن سے پاک اسلامی اصولوں پر استوار مثالی نظام قائم کر کے وطن عزیز کو اقوام عالم میں باعزت‘ باوقار مقام دلائے گی۔ پاکستان میں بسنے والے تمام اہل وطن کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور وفاق کی تمام اکائیوں کے آئینی حقوق کا مکمل احترام کیا جائے گا۔یہ اجلاس اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کا موقف اصولی اور متفق علیہ ہے۔ بھارت سے تمام تنازعات کا اصل سبب کشمیر کا مسئلہ ہے جس کے حل کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کا کوئی امکان نہیں۔ جموں اور کشمیر کی ریاست کا مستقبل وہاں کے عوام کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق طے کیا جائے۔ اس لیے پاک بھارت مذاکرات کا اصل ہدف بھارت سے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کروانا اور جموں وکشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت دلوانا ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی فارمولہ پاکستانی عوام اور جموں وکشمیر کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔متحدہ مجلس عمل قبلۂ اول بیت المقدس کی آزادی اور تحفظ کے لیے امت مسلمہ کے متفقہ موقف کی بھر پور نمائندگی کرتے ہوئے اس کی حیثیت میں تبدیلی کی امریکی واسرائیلی کوششوں کے خلاف اسلامیان پاکستان کو متحرک ومتحد کرے گی۔