کراچی،اپریل 12 (ٹی این ایس): وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گورنر سندھ کی جانب سے سندھ اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے پر اعتراض جتلاتے ہوئے کہا ہے کہ انکی طرف سے اجلاس بلانا قانوناً درست نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 105 گورنر کے اختیارات کیلئے بلکل واضح ہیں۔
سندھ اسمبلی میں سندھ یونیورسٹیز ایکٹ پر گورنر سندھ کے اعتراضات پر وزیراعلیٰ سندھ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں ہم قواعد و ضوابط کے مطابق قانون سازی کرتے ہیں،طاقت اسمبلی کی ہے، آئین کے تحت ہم نے قانون بنانا ہے، ہم نے کسی ایک شخص کو طاقتور بنانے کیلئے قانون نہیں بنانا۔ گورنر سندھ کے پاس اسمبلی اجلاس بلانے کا اختیار نہیں، گورنر صاحب ہم سب کو طلب کرلیتے ہم حاضر ہوجاتے۔ انھوں نے کہا کہ گورنر اسمبلی کا سیشن بھی طلب نہیں کرسکتے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وائس چانسلر کی میرٹ پر بھرتیاں کی گئیں، اچھے شخص کو وائس چانسلر بنایا تو پھر معاملات اس پر چھوڑ دینے چاہئیں، وائس چانسلر گورنر سے چھٹی لیکر چلے جاتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے صوبہ میں نئی جامعات کھولیں، ہم نے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن بنائی اور سندھ میں یونیورسٹیز بہتر کام کررہی ہیں، اصل طاقت اسمبلی ہے، اسمبلی جوبھی قانونسازی کرے گی وہی قانون ہوگا۔ انھوں نے اٹھارویں ترمیم سے متعلق اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ہم نے 18ویں ترمیم پاس کی، صوبوں کو اختیارات دیئے اور آجکل 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بات کی جارہی ہے، اٹھارویں ترمیم کے پیچھے جو ہیں ہمیں معلوم ہے، عوام نے 18ویں ترمیم کی مخالفت کرنے والوں کو مسترد کردیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے مخالفین کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں یونیورسٹیز کو سالانہ اربوں روپے دیے جاتے ہیں کیونکہ جامعات بہتر تعلیم دیتی ہیں،این ای ڈی یوینیورسٹی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ این ای ڈی یونیورسٹی شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ایک رکن اسمبلی کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم خیبر پختون خواہ حکومت کی طرح مولانا سمیع الحق کے مدرسے کی مالی معاونت نہیں کرتے، جب کہنے کو کچھ نہیں ہوتا تو پولیس ریفارمز کی بات کی جاتی ہے، آپ (خیبرپختونخواہ) کے پاس پولیس ریفارمز کےعلاوہ کہنے کو اور کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے سندھ میں پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں کو یکجا کرکے بہترین تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔