اگر بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان کے پاس جواب دینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہو گا

 
0
409

ہم سعودی ولی عہد کے دورہ اور سرماریہ کاری کانفرنس کی تیاری میں مصروف تھے اسی لیے میں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ بھارت کو اس معاملے پر عقل سے کام لینا چاہئیے کیونکہ جنگ شروع کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے لیکن جنگ ختم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان کا پلوامہ حملے پر رد عمل

اسلام آباد فروری 19 (ٹی این ایس): پلوامہ حملے پر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھارت کو منہ توڑ جواب دے دیا ۔ تفصیلات کے مطابق پلوامہ حملے پر بھارتی الزامات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چند دن قبل پلوامہ میں حملہ ہوا۔ اور بھارت نے اس حملے کا پاکستان پر الزام عائد کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرمایہ کاری کانفرنس کی تیاریوں اور سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کی تیاریوں میں مصروف تھے اور اسی لیے تب میں نے اس معاملے پر بھارت کو جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا ۔کیونکہ اگر میں اس وقت جواب دیتا تو ساری توجہ کانفرنس اور دورے سے ہٹ کر اس معاملے پر چلی جانے تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سعودی ولی عہد دورہ مکمل کر کے واپس گئے اور اب میں اس معاملے پر جواب دے رہا ہوں۔ اور میں یہ جواب بھارتی حکومت کے لیے دے رہا ہوں۔ پہلے بھارت نے پلوامہ حملے کا الزام بغیر ثبوت کے پاکستان پر عائد کر دیا ۔اگر پاکستان اتنی اہم کانفرنس کر رہا تھا اور دورے کی تیاری کر رہا تھا ، اس وقت میں کوئی احمق بھی اس طرح کے واقعہ نہیں کرے گا کیونکہ اس سے ساری کانفرنس سبوتاژ ہو جانا تھی ۔ اور تو اور بھلا اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہونا تھا ۔ اس وقت جب پاکستان استحکام کی طرف جا رہا ہے ، ہم نے پندرہ سال دہشتگردی کے خلاف جنگ کی جس میں 70 ہزار پاکستانی مارے گئے اس طرح کی کارروائیوں سے ہمیں کیا فائدہ ہونا تھا ؟ میں بھارتی حکومت سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے ماضی میں پھسنے رہنا ہے اور پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے تو کسی بھی مسئلے کا حل کیسے نکلے گا۔آپ کو چاہئیے کہ جس طرح افغانستان میں بات چیت کے ذریعے مسائل حل کیے جا رہے ہیں اسی طرح آپ بھی اس کی طرف کوئی ڈائیلاگ شروع کریں ۔ میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ نیا پاکستان ہے جہاں نیا مائنڈ سیٹ اور نئی سوچ ہے۔ نہ کوئی باہر سے آ کر یہاں دہشتگردی کر سکتا ہے اور نہ یہاں سے جا کر کوئی باہر ہشتگردی کرے گا۔ میں بھارتی حکومت کو یہ پیشکش کر رہا ہوں کہ اگر آپ پلوامہ حملے میں کسی قسم کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں، یا کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کی تحققیات بھی کروانا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔اگر آپ کے پاس انٹیلی جنس کی بنیاد پر کوئی معلومات ہے تو ہم سے شئیر کریں ہم اس پر ایکشن لیں گے ۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی پاکستانی ملوث ہے تو وہ بھی پاکستان سے دشمنی کر رہے ہیں ، اگر کوئی پاکستان کی زمین استعمال کر رہا ہے تو وہ پاکستان سے دشمنی ہے۔ ہم دہشتگرد ی کی بات کرنے کو بھی تیار ہیں۔ کیونکہ دہشتگردی خطے کا مسئلہ ہے ، ہم اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کو بھی تیار ہیں کیونکہ ہم خطے سے دہشتگردی ختم کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان برداشت کیا ہے، ہم نے ستر ہزار پاکستانیوں کو کھویا ہے۔ہمارا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سو ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں بھارتی حکومت کو دو چیزیں کہنا چاہتا ہوں۔ اب بھارت میں بھی ایک نئی سوچ آنی چاہئیے ، کیا وجہ ہے کہ کشمیر کے نوجوان اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے دل سے موت کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فوج کے ذریعے مسئلہ  حل ہو سکتا ہے۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی فوج کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو اب کیسے ہو گا۔اگر آج تک آپ لوگ کامیاب نہیں ہوئے تو کیا آگے ہو جائیں گے۔ افغانستان کے معاملے پر بھی اب ساری دنیا نے اس بات کو  تسلیم کر لیا ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے ، اگر افغانستان میں بات چیت کے ذریعے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو کیا بھارت میں اس پر بات نہیں ہونی چاہئیے ؟ دوسری چیز ہم میڈیا پر سن رہے ہیں کہ بھارت میں سیاستدان ، ٹی وی چینلز اور ٹی وی اینکرز یہ کہہ رہے ہیں کہ اب پاکستان کو سبق سکھانا چاہئیے ،ہمیں احتجاج کرنا چاہئیے ، ہمیں پاکستان سے بدلہ لینا چاہئیے۔میں یہ پوچھتا ہوں کہ کون سا دنیا کا قانون ہے جو کسی بھی ایک شخص یا ملک کو جج بننے کی اجازت دیتا ہے ۔ بھارت میں یہ الیکشن کا سال ہے، الیکشن میں ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بات کرنے سے اور جنگ کی بات کرنے سے فائدہ ہو اور اسی لیے کہا جا رہا ہو کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے ۔ لیکن اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ  پاکستان سوچے گا نہیں، بھارت کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں پاکستان زبردست جواب دے گا۔اس کے بعد بات کدھر جائے گی وہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ جنگ شروع کرنا آسان ہے، جنگ شروع کرنا انسان کے ہاتھ میں ہے لیکن جنگ ختم کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہو گا۔ اسی لیے میں اُمید رکھتا ہوں کہ امن کے قیام کے لیے عقل استعمال کی جائے گی، اور اس مسئلے کو بھی بات چیت سے حل کر لیا جائے گا۔