مجھے بہت تاخیر سے خبر ملی اتنی دیر ہو چکی تھی کہ میرا یار میری جدوجہد کا ساتھی غازی شاہد علوی مٹی کی چادر اوڑھ کر پر سکون سو چکا تھا میں جانتا ہوں اسے آرام کی بہت ضرورت تھی عمر بھر چند مافیا کے ہاتھوں یلغار بنی میڈیا انڈسٹری کی آزادی کیلئے وہ بہت لڑا تھا ہم آل پاکستان نیوز پیپرز اینڈ ایڈیٹرز فورم کے پلیٹ فارم سے گزشتہ گیارہ سالوں سے چھوٹے اخبارات کے حقوق کیلئے اکھٹے سینہ سپر رہے غازی مجھ سے بھی پہلے اس جدوجہد کا حصہ تھا اس کا ماننا تھا کہ مٹھی بھر لوگ سازش کے ذریعے اس انڈسٹری پر قابض ہیں وہ صحافی نہیں بلکہ سرمایہ دار ہیں جو نہ صرف اس شعبہ کے وسائل لوٹ رہے ہیں بلکہ اس مقدس شعبے کو بہ طور ڈھال استعمال کرتے ہیں
ہمیں یقین تھا کہ ارباب اختیار ہماری سنیں گے ہمیں یقین تھا کہ یہ شعبہ بہروپیوں سے پاک ہوگا حقیقی پڑھے لکھے اور صحافت کو مشن سمجھنے والے لوگ اپنا اصل مقام پائیں گے خوشحالی کچے آنگنوں میں دستک دے گی دور دراز علاقوں سے چھپنے والے اخبارات بھی پھلیں پھولیں گے
میں یہ اقرار کرتا ہوں میرے یار کہ ہم دیواروں سے ٹکریں مارتے رہے ہماری کسی نے نہ سنی عام آدمی اور خاص آدمی کا تو سنا تھا کہ ان کیلئے اس ملک کے قانون مختلف ہیں لیکن ہم نے عام اخبار اور خاص اخبار کا فرق انفارمیشن محکمہ کی راہداریوں میں جوتے چٹخاتے سیکھا غازی میرے یار الوداع تم نے اپنے حصے کی شمع جلا گئے اس لاقانونیت اور اثر و رسوخ کے غیر منصفانہ معاشرے میں غلط العام ٹریفک کے اژدھام کو مجھ تم جیسے لوگ روک نہیں سکتے تھے زیادہ سے زیادہ ایک رکاوٹ ایک اسپیڈ بریکر بن سکتے تھے اور وہ ہم بنے یہ ہی ہمارا سرمایہ ہے یہ جنگیں انسان کو بہت تھکا دیتی ہیں تم بھی تھک گئے ہو گے باغی جیتے جی تو سکون سے بیٹھ سکتے ہیں نہ آرام ان کو چھو کر گزر سکتا ہے سانسیں ٹوٹتی ہیں مٹی کی چادر اوڑھا دی جاتی ہے تو تبھی تھکن مٹتی ہے
غازی شاہد علوی تم ایک شاندار انسان بہت پیارے دوست اپنے مشن سے مخلص حق بات کہنے والے بے باک انسان تھے دوستوں سے اپنا رونا روئے بغیر ذاتی مفادات کی قربانی دے کر اپنے اور بچوں کے پیٹ پر لات مار کر نا ختم ہونے والی لڑائی کا ایندھن بننے کو تیار لوگ اب ناپید ہو گئے ہیں گزشتہ ماہ شاہراہ دستور پر ہمارے دھرنے میں غازی صاحب انتہائی علالت کے باوجود رونق افزاء آل پاکستان نیوز پیپرز کے چئیرمین رانا عمران نے انہیں کہا بھی کہ آپ بیمار ہیں چلے جائیں مگر وہ سارا دن لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے میری یار تو نے اس دن سچ کہا تھا آخری سانس تک دوستوں کے کندھوں سے کندھا لگا کر حق کیلئے کھڑا رہونگا اب تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کون سے اجتجاج میں آخری بار آ رہا ہوں اے صحافت کے غازی تو دوستی کا کوہ ہمالیہ تھا تیری جدوجہد ہمیشہ زندہ رہے گی دل تیری جدائی پہ دُکھی ہے مگر خوشی ہے کہ تو اپنے اجلے من کے ساتھ میلی دنیا کو چھوڑ کر سچے جہان چلا گیا یہ دنیا ویسے بھی اب تیرے جیسے سیدھے سچے کھرے لوگوں کیلئے نہیں رہی اب یہ مداریوں کی منڈی بن گئی ہے کہاں ہر رشتے کی قیمت ضرورت اور مفاد ہے