میرا یار صحافت کا غازی نہیں رہا

 
0
272

مجھے بہت تاخیر سے خبر ملی اتنی دیر ہو چکی تھی کہ میرا یار میری جدوجہد کا ساتھی غازی شاہد علوی مٹی کی چادر اوڑھ کر پر سکون سو چکا تھا میں جانتا ہوں اسے آرام کی بہت ضرورت تھی عمر بھر چند مافیا کے ہاتھوں یلغار بنی میڈیا انڈسٹری کی آزادی کیلئے وہ بہت لڑا تھا ہم آل پاکستان نیوز پیپرز اینڈ ایڈیٹرز فورم کے پلیٹ فارم سے گزشتہ گیارہ سالوں سے چھوٹے اخبارات کے حقوق کیلئے اکھٹے سینہ سپر رہے غازی مجھ سے بھی پہلے اس جدوجہد کا حصہ تھا اس کا ماننا تھا کہ مٹھی بھر لوگ سازش کے ذریعے اس انڈسٹری پر قابض ہیں وہ صحافی نہیں بلکہ سرمایہ دار ہیں جو نہ صرف اس شعبہ کے وسائل لوٹ رہے ہیں بلکہ اس مقدس شعبے کو بہ طور ڈھال استعمال کرتے ہیں
ہمیں یقین تھا کہ ارباب اختیار ہماری سنیں گے ہمیں یقین تھا کہ یہ شعبہ بہروپیوں سے پاک ہوگا حقیقی پڑھے لکھے اور صحافت کو مشن سمجھنے والے لوگ اپنا اصل مقام پائیں گے خوشحالی کچے آنگنوں میں دستک دے گی دور دراز علاقوں سے چھپنے والے اخبارات بھی پھلیں پھولیں گے
میں یہ اقرار کرتا ہوں میرے یار کہ ہم دیواروں سے ٹکریں مارتے رہے ہماری کسی نے نہ سنی عام آدمی اور خاص آدمی کا تو سنا تھا کہ ان کیلئے اس ملک کے قانون مختلف ہیں لیکن ہم نے عام اخبار اور خاص اخبار کا فرق انفارمیشن محکمہ کی راہداریوں میں جوتے چٹخاتے سیکھا غازی میرے یار الوداع تم نے اپنے حصے کی شمع جلا گئے اس لاقانونیت اور اثر و رسوخ کے غیر منصفانہ معاشرے میں غلط العام ٹریفک کے اژدھام کو مجھ تم جیسے لوگ روک نہیں سکتے تھے زیادہ سے زیادہ ایک رکاوٹ ایک اسپیڈ بریکر بن سکتے تھے اور وہ ہم بنے یہ ہی ہمارا سرمایہ ہے یہ جنگیں انسان کو بہت تھکا دیتی ہیں تم بھی تھک گئے ہو گے باغی جیتے جی تو سکون سے بیٹھ سکتے ہیں نہ آرام ان کو چھو کر گزر سکتا ہے سانسیں ٹوٹتی ہیں مٹی کی چادر اوڑھا دی جاتی ہے تو تبھی تھکن مٹتی ہے
غازی شاہد علوی تم ایک شاندار انسان بہت پیارے دوست اپنے مشن سے مخلص حق بات کہنے والے بے باک انسان تھے دوستوں سے اپنا رونا روئے بغیر ذاتی مفادات کی قربانی دے کر اپنے اور بچوں کے پیٹ پر لات مار کر نا ختم ہونے والی لڑائی کا ایندھن بننے کو تیار لوگ اب ناپید ہو گئے ہیں گزشتہ ماہ شاہراہ دستور پر ہمارے دھرنے میں غازی صاحب انتہائی علالت کے باوجود رونق افزاء آل پاکستان نیوز پیپرز کے چئیرمین رانا عمران نے انہیں کہا بھی کہ آپ بیمار ہیں چلے جائیں مگر وہ سارا دن لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے میری یار تو نے اس دن سچ کہا تھا آخری سانس تک دوستوں کے کندھوں سے کندھا لگا کر حق کیلئے کھڑا رہونگا اب تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کون سے اجتجاج میں آخری بار آ رہا ہوں اے صحافت کے غازی تو دوستی کا کوہ ہمالیہ تھا تیری جدوجہد ہمیشہ زندہ رہے گی دل تیری جدائی پہ دُکھی ہے مگر خوشی ہے کہ تو اپنے اجلے من کے ساتھ میلی دنیا کو چھوڑ کر سچے جہان چلا گیا یہ دنیا ویسے بھی اب تیرے جیسے سیدھے سچے کھرے لوگوں کیلئے نہیں رہی اب یہ مداریوں کی منڈی بن گئی ہے کہاں ہر رشتے کی قیمت ضرورت اور مفاد ہے