اقوام متحدہ کے امن مشن کے لئے پاک فوج کامثالی کردار

 
0
354

اندر کی بات؛ کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 29 مئی 2022 (ٹی این ایس): اقوام متحدہ کےتحت امن دستوں میں شامل پاک فوج کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے ہمیں 6 ہزار سے زائد ملٹری اور پولیس افسران امن مشنز کیلئے دئیے ہیں جس کیلئے ہم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں 29 مئی کو عالمی دن پر پاکستان اور اس کے امن فوجیوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا,دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد آئندہ نسل کو ممکنہ جنگوں سے بچانے اور دنیا کے تمام ممالک کے مسائل کے حل کے لیے 24 اکتوبر 1945ء کے روز اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔جس کا بنیادی مقصد دنیا میں امن کی فضاء پیدا کرنا،اور اگر کسی ملک میں جارحیت جاری ہے تو اس کی فوراً روک تھام کرنا ،وہاں کے امن کو بحال کرنا اور انسانی حقوق کے احترام کے علاوہ عالمی قوانین،

سماجی واقتصادی ترقی، حقوق انسانی اور دنیا بھر میں امن قائم کرنے کیلئے مدد فراہم کرناتھا۔ پاک فوج اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد آئندہ نسل کو ممکنہ جنگوں سے بچانے اور دنیا کے تمام ممالک کے مسائل کے حل کے لیے 24 اکتوبر 1945ء کے روز اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔جس کا بنیادی مقصد دنیا میں امن کی فضاء پیدا کرنا،اور اگر کسی ملک میں جارحیت جاری ہے تو اس کی فوراً روک تھام کرنا ،وہاں کے امن کو بحال کرنا اور انسانی حقوق کے احترام کے علاوہ عالمی قوانین، سماجی واقتصادی ترقی، حقوق انسانی اور دنیا بھر میں امن قائم کرنے کیلئے مدد فراہم کرناتھا۔ 30 ستمبر1947 سے آج تک پاک فوج اقوامِ متحدہ کے امن مشن میں حصہ لے رہی ہے دنیا کے مختلف ممالک میں اقوامِ متحدہ کے 70 امن مشنز میں پاک فوج حصہ لے چکی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے جوان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں کام کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے ہمیں 6 ہزار سے زائد ملٹری اور پولیس افسران امن مشنز کیلئے دئیے ہیں. اقوام متحدہ کے تمام ارکان ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ مذہب،زبان،رنگ و نسل اور جنس کے فرق سے بالا تر ہوکرصرف انسانی حقوق کا احترام کریں۔ عام طور پر فوجیوں کو ہتھیار چلانے اور دشمن سے لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے، لیکن امن مشنز میں فوج کا کردار مختلف ہوتا ہے۔ فوجی ہتھیاروں کے استعمال کی بجائےعوام کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے تمام تر مالی مشکلات کے باوجود اقوامِ متحدہ کے قیامِ امن مشن کیلئے 25 ہزار ڈالر عطیہ کیےہیں ۔اس وقت دنیا بھر کے 192سے زائد آزاد ممالک و ریاستیں اقوام متحدہ کی ممبر ہیں.

اقوام متحدہ کے تمام نظام کو اس کی ذیلی ایجنسیاں، جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل ، اقتصادی اور سماجی کونسل،ٹرسٹی شپ کونسل،بین الاقوامی عدالت انصاف اور سیکرٹریٹ چلاتی ہیں۔اس کے علاوہ دو درجن سے زائد ادارے اس کے ماتحت کام کرتے ہیں جن میں چند بڑے ادارے جیسا کہ یونیسکو،ادارہ صحت ،محنت ،خوراک و زراعت اور مالی فنڈ وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے ممالک اور خطے جہاں خانہ جنگی، دیگر ممالک کی دست برد اور دراندازی یا دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے باعث امن و امان تباہ ہوجاتا ہے، وہاں اقوامِ متحدہ اپنے امن مشنز بھیجتا ہے جن میں پاک فوج سمیت دیگر ممالک کے فوجی شریک ہوتے ہیں۔۔تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ آج بھی پاک فوج کانگو، لائبیریا، باروندی، آئیوری کوسٹ اور سوڈان جیسے افریقی ممالک میں امن مشنز میں حصہ لے رہی ہے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے سپاہی وطن سے دور خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں.گزشتہ چھ عشروں سے زائد کے عرصے کے دوران اقوام متحدہ کے 46 امن مشنز میں دو لاکھ سے زائد پاکستانی فوجیوں نے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے فوجی اور پولیس اہلکاروں کی تعداد اقوام متحدہ کے امن دستوں میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی خواتین اہلکار بھی دنیا کے مختلف جنگ زدہ خطوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے امن فوجی اس وقت اقوام متحدہ کے سات بڑے مشنوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان فوجیوں کی اکثریت ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو (ڈی آر سی)، سوڈان کے علاقے دارفور اور وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) میں تعینات ہے۔

اقوام متحدہ میں امن فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے چھ ہزار سے زائد خواتین اور مرد فوجی اہلکار اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے مختلف خطوں ميں سرگرم ہیں۔ ان کے فرائض میں عام شہریوں کی حفاظت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہونے والے فلاحی کاموں کو سرانجام دینا ہے۔ مختلف پروگراموں کے تحت پاکستانی امن فوجی مقامی آبادی کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر وغیرہ کی بنیادی تعلیم بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے امن دستوں میں پاکستانی خواتین کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوجی خواتین کی پندرہ رکنی ٹیم کو ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر اقوام متحدہ کی طرف سے ‘یو این میڈل‘ سے نوازا گیا تھا۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان کے ایک سو ساٹھ امن فوجی مختلف ممالک میں اپنے امور کو سرانجام دیتے ہوئے جان بحق بھی ہو چکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ہلاکتیں صومالیہ مشن کے دوران ہوئیں، جہاں پاکستان کے چالیس امن فوجی جان بحق ہو گئے۔ابھی تک پاکستان کے امن فوجی مجموعی طور پر دنیا کے تیئس ممالک میں اکتالیس مشنز میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر خواتین امن فوجی طبی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اقوام متحدہ میں امن فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے چھ ہزار سے زائد خواتین اور مرد فوجی اہلکار اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے مختلف خطوں ميں سرگرم ہیں. آج بھی پاک فوج کانگو، لائبیریا، باروندی، آئیوری کوسٹ اور سوڈان جیسے افریقی ممالک میں امن مشنز میں حصہ لے رہی ہے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے سپاہی وطن سے دور خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے جوان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں کام کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے ہمیں 6 ہزار سے زائد ملٹری اور پولیس افسران امن مشنز کیلئے دئیے ہیں جس کیلئے ہم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کےامن مشنز کے تحتکانگو میں اگست 1960ء سے لے کر مئی 1964ء تک تقریباً 4 سال تک پاک فوج نے 400 سپاہی اور افسران بھیج کر امن مشن میں حصہ لیا جس میں ٹرانسپورٹ یونٹس اور نیم فوجی دستے بھی شامل تھے۔
مغربی نیو گنی میں اکتوبر 1962ء سے لے کر اپریل 1963ء تک بھی پاک فوج کے 1 ہزار 500 جوانوں نے امن مشن میں حصہ لیا۔
نمیبیا میں اپریل 1989ء سے لے کر مارچ 1990ء تک پاک فوج نے اقوامِ متحدہ کے امن مشن کیلئے 20 عسکری مشاہدین بھیجے۔یہاں بھی پاک فوج کا کردار سراہا گیا۔
ہیٹی میں پاک فوج کے 525 جوانوں نے سن 1993ء سے لے کر 1996ء تک تقریباً 3 سال تک امن مشن میں حصہ لیا۔ کمبوڈیا میں بھی مارچ 1992ء سے لے کر نومبر 1993ء تک پاک فوج کے 1 ہزار 106 جوان امن مشن میں شریک ہوئے جن میں عام فوجی، افسران اور اسٹاف کے علاوہ بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والا عملہ بھی شامل تھا۔
خوش قسمتی سے کانگو سے لے کر کمبوڈیا تک پاک فوج کا کوئی جوان شہید نہیں ہوا تاہم اگلے مشن یعنی مارچ 1992ء سے لے کر فروری 1996ء تک بوسنیا ہرزے گوینا میں پاک فوج کے 300 سپاہی شریک ہوئے جن میں سے 6 شہید بھی ہوگئے۔
اگلا امن مشن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا جہاں مارچ 1992ء سے لے کر فروری 1996ء تک صومالیہ میں پاک فوج کے 7 ہزار 200 اہلکار شریک ہوئے جن میں سے 39 شہید ہوگئے۔

روانڈہ میں اکتوبر 1993ء سے لے کر مارچ 1996ء تک پاک فوج نے 7 عسکری مشاہدین کو بھیج کر امن مشن میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح انگولا میں فروری 1995ء سے لے کر جون 1997ء تک 14 عسکری مشاہدین بھیجے گئے۔
مشرقی سلوانیہ میں مئی 1996ء سے لے کر اگست 1997ء تک 1 ہزار 14 فوجی اہلکار اور اسٹاف کو اقوامِ متحدہ کے امن مشن پر روانہ کیا گیا۔ سیرالیون میں اکتوبر 1999ء سے لے کر دسمبر 2005ء تک پاک فوج کے 5 ہزار فوجی بھیجے گئے جن میں سے 6 شہید ہو گئےتازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ آج بھی پاک فوج کانگو، لائبیریا، باروندی، آئیوری کوسٹ اور سوڈان جیسے افریقی ممالک میں امن مشنز میں حصہ لے رہی ہے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے سپاہی وطن سے دور خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔خیال رہےکہ اقوام متحدہ کی جانب سے امن کے قیام میں فرائض کی انجام دہی کے دوران جان دینے والے پانچ پاکستانی فوجیوں اور ایک شہری کو گزشتہ دنوں بعد مرگ عالمی اعزاز سے نوازا گیا۔یہ چھ پاکستانی دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ان 117 امن فوجیوں میں شامل ہیں جنہیوں نے گزشتہ سال فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کی قربانی دی اور جنہیں اس سال امن دستوں کے عالمی دن کے موقع پر زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔امن دستوں کے عالمی دن کے موقع پراقوا م متحدہ کی ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی خصوصی تقریب میں پاکستانی فوجیوں کو بعد از مرگ اعزاز دیا گیا ان میں طاہر اکرام، طاہر محمود، محمد نعیم، عادل جان، محمد شفیق؛ اور سولین ابرار سید شامل ہیں۔سالانہ میموریل سروس میں اقوام متحدہ کے ان اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی یاد کو تازہ کرنے کے موقعے پر پاکستان کے مستقل نمائندے سفیر منیر اکرم نے لواحقین کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ،”ہم ان کے دکھ میں شریک ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کا نقصان رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان میں پانچ پاکستانی بھی شامل تھے۔ان امن فوجیوں نے اپنی جانوں سے اقوام متحدہ کے جذبے اور اصولوں کے ساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ ہم انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ان کی عظیم قربانی اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے پاکستان کی لازوال خدمات کا ایک اور ثبوت ہے۔”یاد رہے کہ اس وقت دنیا میں امن قائم کرنے کے اقوم متحدہ کے نو فوجی مشنز میں 4400 پاکستانی فرائض انجام دے رہیں۔ اب تک 160 پاکستانی فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہو چکے ہیں۔دنیا میں امن کا قیام پاکستان کی ہمیشہ اولین ترجیح ہے اسی لیے پاکستان اپنی مسلح افواج کے ذریعے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لینے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں معاونت کے حوالے سے 62برس گزر چکے ہیں اور پاکستان 6دہائیوں سے قیام امن کے لیے عالمی کوششوں کا حصہ رہا ہے ۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں معاونت کا آغازاگست 1960میںکیا تھا ۔ علاوہ ازیں اس میں پاکستان نے نیوگینی، نمیبیا، کویت، سریا لیون ،ہیٹی،دارفور سمیت بعض دیگر ممالک میں امن دستے بھیجے جو قیام امن کی کوششوں میں سرگرم عمل رہے۔ بوسنیا میں بھی پاکستان نے قیام امن کی کوششوں میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے بہترین خدمات انجام دیں۔ اقوام متحدہ کی امن کوششوں کے لیے دنیا بھر میں جاری مختلف امن مشنز میں 31 دسمبر 2021 تک 4173،اہلکار قیام امن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔قیام امن کے مشنز میں آج بھی دنیا کے125ممالک کے90 ہزار اہلکار سرگرم عمل ہیں جن میں 8 فیصد تعداد خواتین اہلکاروں کی ہے۔ پاکستان کے امن دستے جن میں خواتین اہلکار بھی شامل ہیں، عالمی امن فورس کا حصہ ہیںپاکستان نے عالمی برادری میں ہمیشہ ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے ،افواجِ پاکستان کے امن دستے دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی تعینات رہے، ان کی کارکردگی انتہائی نامساعد حالات میں بھی بہترین رہی ہے۔ پاکستانی امن دستے نہ صرف وہاں امن ِ عامہ کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ وہاں کے غریب شہریوں اور مہاجرین کے لیے میڈیکل کیمپس کے ذریعے انہیں طبی سہولیات اور مفت ادویات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستانی امن دستے ضرورت مند شہریوں میں راشن کی تقسیم بھی یقینی بناتے ہیں اور یہ سب ہماری افواج کے دستے اپنے ذرائع سے کررہے ہوتے ہیں۔ پاک فوج کے امن دستے مختلف ممالک میں تعلیمی پراجیکٹس بھی چلاتے ہیں پاکستان یو این امن مشنز میں امن کے فروغ کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ رہا ہے۔ افواجِ پاکستان کے امن دستے دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی تعینات رہے، ان کی کارکردگی انتہائی نامساعد حالات میں بھی بہترین رہی ہے۔ پاکستانی امن دستے نہ صرف وہاں امن ِ عامہ کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ وہاں کے غریب شہریوں اور مہاجرین کے لیے میڈیکل کیمپس کے ذریعے انہیں طبی سہولیات اور مفت ادویات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستانی امن دستے ضرورت مند شہریوں میں راشن کی تقسیم بھی یقینی بناتے ہیں اور یہ سب ہماری افواج کے دستے اپنے ذرائع سے کررہے ہوتے ہیں۔ پاک فوج کے امن دستے مختلف ممالک میں تعلیمی پراجیکٹس بھی چلاتے ہیں اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان نے امن مشنز میں ایک ہراول دستے کاکردار ادا کر کے دنیا کے تمام ممالک میں امن کا پرچم بلند کیا۔

نامساعد حالات اور مقامات پر بھی امن مشن کے لیے پاکستانی دستے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔خانہ جنگی کے شکار ممالک میں دیر پا امن کا قیام اقوام متحدہ کے امن مشنز کا سب سے بڑا مقصد ہو تا ہے ۔امن مشن میں شامل فوجی اورمختلف ممالک کے سویلینز جنگ کے بعد کسی ملک یا خطے میں سابقہ جنگجوئوں کے ساتھ مل کر طے پانے والے امن معاہدوں پر عملدرآمد کی نگرانی کرتے ہیں.امن مشنز،اعتماد کی بحالی ،اختیارات کی تقسیم ، انتخابی عمل کی حمایت ، قانون کی حکمرانی کے علاوہ معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے کسی ملک کی مدد کرتے ہیں اور رنگ،نسل،جنس، علاقہ اور مذہب کی بنیاد سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں, قوام متحدہ کا قیام 24اکتوبر 1945 کو عمل میں آیا جس کا مقصد عالمی سطح پر امن کا قیام ، مختلف خطوں میں انسانی ہمدردی کے حوالے سے معاونت اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دے کر عملی اقدامات کرنا ہے۔ امن کوششوں کے حوالے سے اقوام متحدہ نے سب سے پہلے1948 میں فلسطین اور کشمیر کے مشنز سے آغازکیا تاہم اسرائیلی اور بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث دونوں خطوں میں 74برس گزرنے کے باوجود امن کا قیام ممکن نہ بنایا جا سکا اور آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر یہ دونوں طویل ترین مشنز بدستور حل طلب ہیںامن کے خواہاں عالمی رہنمائوں اور اقوام متحدہ کی طرف سے افواج پاکستان کی خدمات اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا پاکستان کی عالمی امن اور سلامتی کی خاطر کی گئی عملی کوششوں کا واضح اعتراف ہے۔ تاریخ کے تناظر میں دیکھاجائے تو بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ ہمارا دیرینہ تعلق ہے جوقائداعظم محمد علی جناح جیسی قدآور شخصیت سے جڑا ہوا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اقوام متحدہ کے میثاق کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے پوری دنیا کی اقوام کے مابین امن اور خوشحالی کے فروغ میں بھر پور تعاون کرنے کے خواہاں تھے ۔ آج پاکستان کی سکیورٹی فو رسز بھی بانیٔ پاکستان کے اسی خواب کو عملی تعبیر دینے کے لیے پوری دنیامیں قیام امن کے لیے بھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔کانگو میں اگست 1960 سے لے کر مئی 1964 تک تقریباً 4 سال تک پاک فوج نے 400 سپاہی اور افسران بھیج کر امن مشن میں حصہ لیا جس میں ٹرانسپورٹ یونٹس اور نیم فوجی دستے بھی شامل تھے۔مغربی نیو گنی میں اکتوبر 1962 سے لے کر اپریل 1963 تک بھی پاک فوج کے 1 ہزار 500 جوانوں نے امن مشن میں حصہ لیا۔ نمیبیا میں اپریل 1989 سے لے کر مارچ 1990 تک پاک فوج نے اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے لیے20 عسکری مشاہدین بھیجے۔یہاں بھی پاک فوج کا کردار سراہا گیا۔
ہیٹی میں پاک فوج کے 525 جوانوں نے 1993 سے لے کر 1996 تک تقریبا 3 سال تک امن مشن میں حصہ لیا۔ کمبوڈیا میں بھی مارچ 1992 سے لے کر نومبر 1993 تک پاک فوج کے 1 ہزار 106 جوان امن مشن میں شریک ہوئے ،جن میں عام فوجی، افسران اور سٹاف کے علاوہ بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والا عملہ بھی شامل تھا۔ مارچ 1992 سے لے کر فروری 1996 تک بوسنیا ہرزیگووینا میں پاک فوج کے 300 سپاہی شریک ہوئے جن میں سے 6 شہید بھی ہوگئے۔اگلا امن مشن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا جہاں مارچ 1992 سے لے کر فروری 1996 تک صومالیہ میں پاک فوج کے 7 ہزار 200 اہلکار شریک ہوئے جن میں سے 39 شہید ہوگئے۔ روانڈہ میں اکتوبر 1993 سے لے کر مارچ 1996 تک پاک فوج نے 7 عسکری مشاہدین کو بھیج کر امن مشن میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح انگولا میں فروری 1995 سے لے کر جون 1997 تک 14 عسکری مشاہدین بھیجے گئے۔
مشرقی سلوانیہ میں مئی 1996 سے لے کر اگست 1997 تک 1 ہزار 14 فوجی اہلکار اور سٹاف کو اقوامِ متحدہ کے امن مشن پر روانہ کیا گیا۔ سیرالیون میں اکتوبر 1999 سے لے کر دسمبر 2005 تک پاک فوج کے 5 ہزار فوجی بھیجے گئے جن میں سے 6 شہید ہو گئے۔29 مارچ 2022 کو کانگو میں اقوام متحدہ امن مشن میں ڈیوٹی پر مامور پوما ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں پاکستانی افسروں اور جوانوں سمیت 8 اہلکار شہید ہوگئے ۔پاک فوج کا پوما ہیلی کاپٹر نگرانی کے مشن پر تھا۔ پاک ایوی ایشن یونٹ یو این امن مشن کانگو میں 2011 سے تعینات ہے شہداء میں لیفٹیننٹ کرنل آصف نواز، میجرسعد نعمانی ، معاون پائلٹ میجر فیضان علی، نائب صوبیدار سمیع اللہ خان، حوالدار محمد اسماعیل، کریو چیف محمد جمیل شامل تھے خانہ جنگی، دراندازی, دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے باعث امن و امان تباہ ہوجاتا ہے، امن مشن میں فوج کا کردار مختلف ہوتا ہے۔ فوجی ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے عوام کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔زیادہ تر صورتوں میں طاقت کے استعمال کی بالکل اجازت نہیں دی جاتی۔ صرف ذاتی دفاع میں اجازت ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے امن مشن میں پاک فوج سمیت دیگر ممالک کے فوجی شریک ہوتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد آئندہ نسل کو ممکنہ جنگوں سے بچانے اور دنیا کے تمام ممالک کے مسائل کے حل کے لیے 24 اکتوبر 1945ء کے روز اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔جس کا بنیادی مقصد دنیا میں امن کی فضاء پیدا کرنا،اور اگر کسی ملک میں جارحیت جاری ہے تو اس کی فوراً روک تھام کرنا ،وہاں کے امن کو بحال کرنا اور انسانی حقوق کے احترام کے علاوہ عالمی قوانین، سماجی واقتصادی ترقی، حقوق انسانی اور دنیا بھر میں امن قائم کرنے کیلئے مدد فراہم کرناتھا۔ 30 ستمبر1947 سے آج تک پاک فوج اقوامِ متحدہ کے امن مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان نے امن مشن میں ایک ہراول دستے کا کام کیا ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں امن کا پرچم بلند کیا ہےآج بھی پاک فوج کانگو،سنٹرل افریقہ، سوڈان،مالی ، دارفور،ویسٹرن سحارا،قبرص اور صومالیہ جیسے افریقی ممالک میں امن مشنز میں حصہ لے رہی ہے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے سپاہی وطن سے دور خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں 160 سے زائد افسران اور جوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔